پنجاب پولیس کے جعلی مقابلے
Reading Time: 2 minutesپنجاب پولیس کے جعلی مقابلوں کا بھانڈا زینب قتل کیس میں مرکزی ملزم کی گرفتاری سے ایک بار پھر پھوٹ گیا ہے۔ گزشتہ برس فروری میں قصور پولیس نے ایک شخص کو ایک بچی کے قتل کے الزام میں ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔ زینب کے ڈی این اے کی رپورٹ میں اصل ملزم سامنے آنے کے بعد جب یہ معلوم ہوا کہ گزشتہ سال قصور ہی میں اغوا کرنے کے بعد قتل کی گئی پانچ سالہ ایمان فاطمہ کے جسم سے ملنے والا ڈی این بھی عمران کا ہی تھا،تو جعلی مقابلے میں شریک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال فروری میں مدثر نامی شخص گرفتاری کے دوران مزاحمت کی وجہ سے مارا گیا تھا۔
زینب کیس میں پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملنے والا ڈی این اے وہی ہے جو قصور ہی میں دیگر سات بچیوں پر ہونے والے حملوں سے ملا تھا۔ پولیس نے عمران علی نامی شخص کو 22 جنوری کو قصور سے گرفتار کیا اور پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ اس کا ڈی این اے زینب کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے سے مکمل مطابقت رکھتا ہے اور دعویٰ کیا کہ وہی اس کا قاتل ہے۔ پولیس کے مطابق عمران کے ڈی این اے کا نمونہ زینب کے جسم سے حاصل کیے گئے قاتل کے ڈی این اے کے نمونوں سے مطابقت رکھتے تھے جس سے یہ ثابت ہوا کہ عمران ہی زینب سمیت ان آٹھ بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں کا مرکزی ملزم ہے ۔
پولیس نے ایمان فاطمہ کے قتل پر ایک شخص مدثر کو مشتبہ کہہ کر گرفتار کیا اور پھر جعلی مقابلے میں قتل کر دیا تھا ۔آج تک پولیس اور متاثرہ خاندان یہی سمجھتے رہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا ہے۔ جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا اکیس سالہ مدثر ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا اور تقریباً دو سال پہلے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ قصور آیا تھا۔ پولیس کے ایک بیان کے مطابق مدثر کو مزاحمت کے دوران مارا گیا، جبکہ ایک اور سینیئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ مدثر کو حراست میں لیا گیا جہاں اس نے اقبال جرم کیا، اور پھر بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا۔
مدثر کی والدہ جمیلہ بی بی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں سب کچھ کھو بیٹھی ہوں۔ انھوں نے میرا بیٹا مار ڈالا۔ جمیلہ بی بی نے روتے ہوئے کہا ’ہمارے پڑوس میں رہنے والوں میں سے کوئی ہمارے ساتھ بات تک نہیں کرتا تھا۔‘ اس واقعے کے چند دن بعد مدثر کے گھر والے قصور چھوڑ کر چلے گئے۔ مدثر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جس دن ایمان فاطمہ اغوا اور قتل ہوئی اسی دن مدثر کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس کے بعد وہ پولیس کے ساتھ گئے اور ایک مقامی ہسپتال سے مدثر کی لاش حاصل کی۔