جج کی بیٹی کی سرجری کتنے میں؟
Reading Time: 2 minutesانکشاف ہواہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی بیٹی کی معمولی قسم کی سرجری کے ایک نجی ہسپتال نے 64 لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔ دوسری جانب چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کا مقدمہ نمٹانے کے بعد پرائیویٹ شعبے میں کام کرنے والے ہسپتالوں کو بھی دیکھیں گے، صحت کی سہولیات بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، سپریم کورٹ نجی ہسپتالوں میں دی گئی سہولیات اور فیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دل کے مریضوں کو غیرمعیاری سٹنٹ فراہمی پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔عدالت میں اسلام آباد کے نجی ہسپتال شفاءکے شعبہ امراض قلب کے سربراہ پیش ہوئے اور بتایاکہ پنجاب حکومت کے ہسپتالوں میں جس قیمت پر سٹنٹ فراہم کیا جا رہا ہے ہمیں مارکیٹ سے اس سے دوگنا قیمت پر ملتاہے، اگر عدالت کوئی ایسا طریقہ کار بنانے کیلئے کہے کہ جس سے ہمیں بھی اتنی ہی قیمت پر سٹنٹ ملے تو مریضوں کا بھلا ہوگا۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ کو سٹنٹ ڈالنے کے کل اخراجات میں بھی کمی لانا ہوگی، آپ کا ہسپتال بہت زیادہ پیسے لیتاہے، ہمارے ایک جج صاحب کی بچی کی دو معمولی قسم کے آپریشن ہوئے اور آپ کو معلوم ہے کہ کتنے پیسے وصول کیے گئے؟۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ مجھے معلوم نہیں، ہسپتال انتظامیہ جانتی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے چیف ایگزیکٹو کو بلالیں، سارا ریکارڈ اور دستاویزات بھی لے آئیں۔ آپ کے ہسپتال نے 64لاکھ روپے وصول کیے اس معمولی آپریشن کے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نجی شعبے کے میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کی اہمیت جانتے ہیں مگر خبردار کرتے ہیں کہ یہ ایسا کاروبار نہیں جس میں منافع ہی کمانے پر نظر ہو۔جو بھی ہسپتال میں چلا گیا، ذبح کرکے واپس بھیج دیں، کوئی پرائیویٹ ہسپتال جائے تو آپ اس کے کپڑے بھی اتاردیں، اپنے مالکان کو بتادیں کہ ہم سرکاری ہسپتالوں سے نمٹنے کے بعد ان سے بھی پوچھیں گے۔ عدالت کے پوچھنے پر کلثوم ہسپتال کے ڈاکٹر نے بتایاکہ وہ دل کے امراض کے آپریشن میں دس سے پندرہ فیصد منافع کماتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کی اس بات پر آڈٹ کرانے کاحکم دے دوں؟۔ ڈاکٹر نے فورا کہاکہ مجھے درست طور پر معلوم نہیں مگر منافع کم ہی رکھا ہواہے۔ سپریم کورٹ سے اے وحید مراد