باہر سے پاکستانی پیسہ کیسے لائیں؟
Reading Time: 4 minutesپاکستانیوں کے بیرون ملک اکاونٹس پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک عدالت میں پیش ہوئے ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایاکہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی غیرقانونی رقم واپس لانے کیلئے معاہدے کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر سٹیٹ بینک بتائیں کیا سوئٹزرلینڈ میں موجود اکاونٹس سے پیسہ پاکستان واپس آ سکتا ہے، پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے بیرون ملک اکاونٹس اور املاک بنا رکھی ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک نے بتایاکہ سوئٹزرلینڈ سے دو طرفہ معاہدہ ہو گیاہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اتنا پیسہ پاکستان سے باہر چلا گیا ہے کس طرح واپس لایا جا سکتا ہے؟۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جوقانی طریقے سے رقم لے کرگئے ہوں گے لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو غیرقانونی طریقے سے رقم لے کر گئے ہیں، کہا جاتا ہے یہ پیسہ باہرسے واپس آجائے تو ہمارے سارے قرضے اتر جائیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے گورنرسٹیٹ بنک اور سیکرٹری خزانہ سے بہت توقعات ہیں، آپ قوم کے ہیرو ہوں گے۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جرمنی، سوئٹرز لینڈ میں ہزاروں لوگوں کے اکاونٹس کے بارے معلومات لیں، انڈیا نے بھی سوئٹزرلینڈ سے سینکڑوں لوگوں کی معلومات لیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چئیرمین ایف بی آر، گورنرسٹیٹ بنک اور سیکرٹری خزانہ مل کر طریقہ کار بنائیں ۔ ملائیشیا میں بھی لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آپ تینوں بڑے امانت دار افیسر ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ اس کی کاروائی سے کوئی افراتفری نہیں پھیلنی چاہیے،جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کریں،اگر قوانین میں سقم ہے تو ہمیں نشاندہی کروائیں، یہ بھی نشاندہی کرائیں کون سی رقوم غیر قانونی طریقے سے منتقل ہوئی، پہلا کام ان لوگوں کا پتا چلانا ہے جو ٹیکس دیے بغیر پیسا باہر لے گئے، یہ بھی دیکھیں جو پیسا باہر سے پاکستان لائیں ان کو کیا مراعات ملیں گی، یہ ٹیکس کی آدائیگی اور عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قوانین میں سقم ہوتے تو ہم ممکن ہے ریاست کو قانون سازی کا کہیں ۔ چیرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ سوئٹزرلینڈ سے معلومات لینے کے تمام اقدامات مکمل ہیں،پارلیمنٹ نے معائدے کی توثیق کرنی ہے۔ ایف بی آر کے وکیل رانا وقار نے بتایا کہ پانامہ لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام آئے، 78 لوگوں کے پتے نہیں مل سکے، 363 لوگوں کوایف بی آر نے نوٹس جاری کیے۔ ممبر ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ پاناما میں نام آنے والے 185 لوگوں کی فہرست نادرا کو دی تھی لیکن نادرا 185 لوگوں کی معلومات نہ دے سکا ۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جن کو نومبر 2016 میں نوٹس جاری ہوئے اب تک کیا ہوا، کیا آ ف شور کمپنی والوں سے وضاحت مانگی ہے ۔ ایف بی آر کے ممبر نے بتایاکہ 6.62 بلین روپے وصول کیے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں سے یہ رقم وصول ہوئی ہے، جس پر ممبر ایف بی آر نے عدالت کو آگاہ کیا 2 لوگوں سے یہ رقم وصول ہوئی جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا 6 بلین روپے قومی فنڈ میں گئے، کیا ایف بی آر نے اس رقم کی لینڈ کروزر خریدیں، ہمیں بتائیں ایف بی آر کے کتنے ملازمین کے پاس لینڈ کروزر یا پجیرو گاڑیاں ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ یہ رقم قومی خزانے میں چلی گئی، تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے 73 لوگوں کے ایڈریس کاپتہ لگانے کے لیے اشتہار دینے کی تجویز ہے عدالت ہدایت جاری کرے، چیف جسٹس نے کہا کہ ڈر ہے کہ اشتہارات کی مد میں پچیس کروڑ خرچ کردیں گے، اپنی ویب سائٹ پر اشتہار دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کم خرچ بالا نشین لوگ چاہئیں۔ جسٹس عمر عطا نے کہاکہ خوشی تب ہوگی جب ایف بی آر ٹیکس نہ دینے والوں سے رقم وصول کرے گا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک میں صرف 11لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں، 11لاکھ ٹیکس دینے والے ہی ایف بی آر کے ساتھی ہیں، پاکستان ۲۴ کے مطابق ممبر ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ 293 میں سے 232 لوگ ٹیکس فائلر ہیں، 72 لوگوں نے آف شور کمپنیوں سے تعلق تسلیم کیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 72 لوگوں سے پوچھا گیا کہ آف شور کمپنی کس طرح بنائیں، کافی لوگ کہتے ہیں ان کی کمپنی کی فیس ویلیو 1 ڈالر ہے، ایک ڈالر کی کمپنی والوں کے نام بتا دیں، معلومات منگوا لیتے ہیں، دیکھ لیتے ہیں کن لوگوں نے بیرون ملک کروڑوں ڈالرز کی جائیدادیں خرید رکھیں ہیں، پھر کہتے ہیں ایک ڈالر کی کمپنی ہے جس پر ممبر ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں ان کی کمپنیاں غیر فعال ہو چکی ہیں۔ ممبر ایف بی آر کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ 72 میں سے دس لوگوں کے نام ہمیں دے دیں ہم ان لوگو ں کو بلوا لیتے ہیں۔ ممبر ایف بی آر نے عدالت میں اعتراف کیا کہ عدالت کے از خود نوٹس لینے کا ادارے کو بہت فائدہ ہواہے،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر از خود نوٹس نا لیتے تو یہ کام نہیں ہونا تھا،کسی کو ٹارگٹ نہ کیا جائے، جس کی ایک ڈالر کی کمپنی ہے اس کے ڈائریکٹر کو بھی بلو الیتے ہیں۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی بھی عدالت میں موجود تھے، چیف جسٹس اور محمد علی درانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے محمد علی درانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ محبت میں تشریف لے آئیں، ہم نے معاملے پر ازخود نوٹس لیا ہے، جس پر محمد علی درانی نے عدالت سے کہا کہ میری درخواست کو مقدمہ کے ساتھ منسلک کر لیں، عدالت نے محمد علی درانی کی درخواست ازخود نوٹس کے ساتھ منسلک کر دی، سماعت غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دی۔