پاکستان پاکستان24

نقیب محسود کیس میں گہری ریاست

مارچ 14, 2018 3 min

نقیب محسود کیس میں گہری ریاست

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں نقیب محسود قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا نے راؤ انوار کو چھپانے اور تحفظ فراہم کرنے والے سرکش عناصر کی شناخت چاہی ہے

نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ راو انوار کاایک اور خط آیا ہے، معلوم نہیں خط اصلی ہے یا نقلی، خط کو فائل میں رکھوا دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راو انوار کہتے ہیں اکاونٹ کھول دیں ۔

عدالت کو بتایا گیا کہ رپورٹ جمع کرائی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ آ رہی ہے لیکن پراگریس نہیں ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے مطابق تمام مشتبہ افراد نے موبائل نمبر بند کر دئیے ہیں، آئی ایس آئی کے مطابق سندھ پولیس کو تکنیکی معاونت فراہم کر رہے ہیں_

پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایم آئی کے مطابق ان کے پاس ٹیکنیکل معاونت کے ذرائع محدود ہیں لیکن پولیس سے تعاون کر رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کیا ایم آئی اور آئی ایس آئی آپ کی معاونت کر رہے ہیں؟

آئی جی نے کہا کہ دونوں سیکورٹی ادارے معاونت کر رہے ہیں، مقدمہ کاچالان داخل کر دیا ہے، پہلی ایف آئی آر منسوخ کر دی ہے ۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نقیب اللہ کیس میں 24 ملزمان ہیں ابھی تک 10لوگ گرفتار ہوئے ہیں، ریاست کی اتھارٹی پرسوال اٹھ رہے ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ صرف راؤ انوار نہیں 24 پولیس اہلکار ملوث ہیں، وکیل سول سوسائٹی کے مطابق صرف 10 پولیس اہلکار گرفتار کئے گئے، وکیل نے کہا کہ پورا ریاستی ڈھانچہ ہیڈ کانسٹیبل سطح کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے، اس سوال کا جواب آنا چاہیے، وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ اس ملک کی سب سے بڑی عدالت کے لیے بھی سوال ہے کہ اس کے حکم پر ایک عام پولیس اہلکار گرفتار نہیں کیا جا رہا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سوال ہم سندھ پولیس کے سربراہ سے پوچھ لیتے ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ 24 میں سے 12 گرفتار کر لیے ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ باقی پولیس اہلکار کہاں چلے گئے ہیں ۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ خیال ہے کہ بہت گہرائی میں غائب ہو گئے ہیں، ان اہلکاروں کے آبائی اضلاع میں بھی چھاپے مارے، آئی ایس آئی نے بھی معلوم کرنے کی کوشش کی ۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ دو ممکنات ہیں، یہ واضح ہے کہ کچھ لوگ ان ملزمان کو چھت فراہم کر رہے ہیں، یہ عناصر یا تو ریاست دشمن ہیں یا پھر پرائیویٹ آرمی، ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے والے سرکش عناصر بھی ہو سکتے ہیں ۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ ہم ان عناصر کو شناخت کرنے میں ناکام ہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر یہ ریاست دشمن عناصر نہیں تو کیا سیاسی لوگ ہیں؟ آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، مفرور اہلکاروں کی آخری جگہ لاہور اور بھیرہ ملی ہے ۔

پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کراچی ائر پورٹ پر مفرور ہولیس افسر کو مدد فراہم کرنے والے افراد کی شناخت بھی نہیں کی جا رہی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ کراچی ائر پورٹ کی فوٹیج کا کیا بنا؟ ۔ آئی جی نے بتایا کہ ائر پورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم وہ فوٹیج دیکھ سکتے ہیں؟ ۔  آئی جی سندھ نے کہا کہ کھلی عدالت میں نہ چلائی جائے، اس میں ائر پورٹ سیکورٹی فورس کے افسران موجود ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد مل جائے ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق عدالت نے آئی جی سندھ کو راو انوار کی کراچی اور اسلام آباد سی سی ٹی وی فوٹیج پر بریفنگ دینے کا حکم دیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈائریکٹرجنرل ائرپورٹس سیکیورٹی فورس کو بھی طلب کرلیا ۔ عدالت نے کہا ہے کہ سی سی ٹی وی پر بریفنگ ان کیمرا ہوگی ۔

نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت 16مارچ تک ملتوی کر دی گئی ۔ آئندہ سماعت کراچی میں ہوگی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے