سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس
Reading Time: 3 minutesبحریہ گالف سٹی کو نوٹس دیا جا چکا ہے لیکن تعمیرات متعلقہ محکمے کی اجازت سے مشروط ہیں ۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان نے مری جنگلات کٹائی اور ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیرات کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت کو پانی کی آلودگی اور بے ہنگم رہائشی آبادی کی پرواہ نہیں، پنجاب کے شہروں میں سیوریج صفائی نظام ناکام ثابت ہو گیا ہے، صوبائی حکومت نے جنگلات تحفظ معاملے میں اب تک کیا پیش رفت کی ۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مری میں جنگلات کی کٹائی کرکے ہاسنگ سوسائٹیوں کی تعمیرات کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کا آغاز کیا تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہنا تھا کہ جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کے لیے سب کمیٹی بنا دی ہے، کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں ۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ کسی معاملے کو طول دینا ہو تو کمیٹی بنا دی جاتی ہے، کمیٹی کا مطلب معاملے کو لٹکانا ہوتا ہے، متعلقہ حکام بتائیں جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے پیش رفت کیا ہے؟ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے کام مکمل کرنے کا وقت نہیں بتایا گیا ۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ کہ رپورٹ میں تین تحصیلوں کو ماحولیاتی لحاظ سے حساس قرار دینے کی وجوہات بتائی گئی ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا علاقے میں ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کی گئی ہے؟ کیا مقامی لوگ پہاڑوں پر دو چار گھر بنا سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ بڑے شہروں میں سیوریج سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے، پنجاب کے شہروں میں سیوریج صفائی نظام ناکام ثابت ہو گیا ہے، راولپنڈی کے ملحقہ علاقے ناخوشگوار تصویر دکھاتے ہیں، سملی ڈیم میں بھی سیوریج کا پانی جا رہا ہے، پانی کی آلودگی اور بے ہنگم رہائشی آبادی کی حکومت کو پرواہ نہیں ۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ یہ عزم اور کمٹمنٹ صرف کاغذات میں ہے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا، مائیکرو اسکوپ سے دیکھنے پر بھی عملی کام دکھائی نہیں دیتا ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا ہم بھی فضلے سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں؟ کیا پاکستان میں اس سطح کی صلاحیت ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس شعبے میں ڈاکٹریٹ کرنے والے افسر ہیں ۔ متعلقہ افسر ڈاکٹر عثمان حنیف نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے سیوریج کے پانی کو توانائی میں بدلنے کیلئے بھی غیرملکی تعاون سے سیکٹر آئی ایٹ میں پلانٹ لگایا گیا ہے مگر اس کی گنجائش دس لاکھ گیلن روزانہ ہے جبکہ وہاں صرف دو ملین گیلن آتا ہے اس لیے اس معیار کی سیوریج ٹریٹمنٹ نہیں کی جا رہی ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ سملی ڈیم میں بھی پلانٹ لگا ہے مگر کام نہیں کرتا ۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کی تین تحصیلوں کی ماسٹر پلاننگ کی جائے گی، تینوں تحصیلیںمری، کہوٹہ اور کوٹلی ستیاں ماحولیاتی لحاظ سے حساس ہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہائشی تعمیرات کو محدود نہ کر سکے پہاڑوں پر کیسے کریں گے ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ ہم سبق نہیں سیکھتے، سیلاب آتے اور شہروں کو متاثر کرتے ہیں،دنیا پانی کو ماضی بعید کی طرح شفاف رکھنے کی کوشش کر رہی ہے1979 میں پہلا بلدیاتی نظام قانون لایا گیا، جسٹس اعجاز افضل خان نے استفسار کیاکہ جب ماسٹر پلان ہی نہیں تو اس کی خلاف ورزی پر تعمیرات کیسے گرائیں گے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ تین تحصیلوں میں 13 ہائوسنگ سوسائٹیز کو نوٹس بھیجے ہیں جبکہ 9 ہائوسنگ سوسائٹیز کا تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے، خلاف ورزی کرنے والوں میں بحریہ گالف سٹی بھی شامل ہے جس کو نوٹس دیا جا چکا ہے ۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر بھی نوٹس بھیجے گئے، ان کا کہنا تھا کہ کہوٹہ میں حساس ادارے کو اپنی حدود کی نشاندہی کیلئے کہا ہے ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ازخود نوٹس 2005 میں لیا گیا تھا جبکہ اس علاقے کو حساس 2008 میں ڈیکلیئر کیا گیا ۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہم اپنی جانب سے سوسائیٹیوں کو ریگولر کرنے کی کوشش کریں گے جس پر جسٹس اعجازافضل خان نے کہاکہ نسل در نسل ہائشیوں کو تعمیرات سے نہیں روک سکتے۔
بعدازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سماعت پر معروضات مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی ۔