نہال ہاشمی توہین عدالت کیس
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے سابق سینیٹر اور وکیل نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس غیر مشروط معافی مانگنے کے بعد ختم کر دیا ہے ۔ پاکستان کے وکلا کی تنظیموں نے نہال ہاشمی کو معاف کرنے کی استدعا کی جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور وکیل نعیم بخاری نے مثالی سزا دینے کی بات کی ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق سپریم کورٹ بار کے صدر پیر کلیم خورشید عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ مشکور ہیں کہ اس مقدمے میں ہمیں بلایا گیا، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نہال ہاشمی کا دفاع نہیں کرسکتے ۔ کلیم خورشید کا کہنا تھا کہ اداروں کا احترام نہیں کروا سکتے تو یہ ہماری ناکامی ہے، ہمیشہ عدلیہ کے احترام کیلئے کوشش کی، حضرت علی نے منہ پر تھوکنے والے کو معاف کیا، پیر کلیم خورشید نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ اب ججوں کا ذاتی ہے اس لیے عدالت معافی قبول کرلے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضٰی نے کہا کہ نہال ہاشمی کی گفتگو کا دفاع نہیں کروں گا، بطور وائس چیئرمین پاکستان بار عدالت سے معافی مانگتا ہوں، نہال ہاشمی نے زیادتی کی ہے، کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی کے گھر کے حالات بھی جانتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بس وہ بات یہیں پر چھوڑ دیں ۔
دیگر وکلاء رہنماوں نے بھی نہال ہاشمی کو معاف کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ عدالت بڑے پن کا ثبوت دے ۔
وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ عدلیہ کو برا کہنے والا خود کو برا کہہ رہا ہوتا ہے، نہال ہاشمی کی باتوں کا دفاع ممکن نہیں ، سندھ بار کونسل نے اس کا وکالت کا لائسنس تین ماہ کے لئے معطل کر دیا ہے قانون میں زیادہ سے زیادہ یہی سزا ہے، باقی معاملہ ٹریبونل میں جائے گا تو فیصلہ ہوگا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل احسن بھون نے کہا کہ تمام وکلاء اور بار عہدیدران نے نہال ہاشمی کے بیان کا جائزہ لیا، نہال ہاشمی کا بیان کسی طور قابل قبول نہیں، نہال ہاشمی کے وکیل کے طور پر پیش نہیں ہو رہے، کوئی نارمل آدمی ایسا بیان کبھی نہیں دے سکتا ۔ احسن بھون نے کہا کہ نہال ہاشمی جیسا بیان کوئی پاگل ہی دے سکتا ہے ۔ اس کی شدید مذمت کرتے ہیں یہ ایک پاگل شخص کا بیان ہے، عدالت بار بار ایسی صورتحال میں درگزر سے ہی کام لیتی ہے ۔
وکیل ابراہیم ستی نے توہین عدالت کے قانون کے تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں اب بھی بہتری کی ضرورت ہے، گزشتہ دنوں بھی عدالت نے بعض توہین عدالت کے نوٹس بغیر کارروائی کے ختم کیے اس لیے پھر سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں ۔ 1997 سے ایسا رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے، عدالت پر حملے کے بعد توہین عدالت کا قانون ختم کیا گیا، عدالت مناسب سمجھتی ہے تو سزا دے، مگر اصول طے کئے جائیں اور سب کے ساتھ ایک جیسا برتائو کیا جائے۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق ابراہیم ستی نے نہال ہاشمی کو بھی دیگر کی طرح معاف کرنے کی استدعا کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصول طے ہیں، اس کے لیے ہر کیس کے حقائق بھی دیکھنے ہوتے ہیں جو الگ ہوتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے رہنما اور وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں کہا کہ مجھ سے منفاقت نہیں ہوسکتی، جیل سے باہر آ کر نہال ہاشمی نے وہی کام دوبارہ کیا ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وکیل بدمعاش بن چکے ہیں، یہ عدالتوں میں ججوں کو مارتے ہیں، عدالت عزت و احترام کا اعلی معیار قائم کرے ۔ نعیم بخاری نے بتایا کہ ٹی وی پر کہہ چکا ہوں کہ میری بیٹی کیلئے کوئی وکیل رشتہ نہ بھیجے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق نعیم بخاری نے کہا کہ پہلے میں یہاں کھڑے ہو کر جج کو جوتا ماروں اور پھر کہوں کہ غیر مشروط معافی مانگتا ہوں تو عدالت کیوں مجھے معاف کرے، عدالت نہال ہاشمی کو قانون کے مطابق سخت اور زیادہ سے زیادہ سزا دے تاکہ ایک بار ہی سب کیلئے مثال قائم ہو ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لارڈ ڈیننگ کو عدالت میں ایک خاتون نے جوتا مارا تو انہوں نے جھک کر وار بچا لیا اور پھر بولے کہ مجھے یقین ہے کہ اس کا نشانہ میں نہیں تھا ۔ چیف جسٹس نے ہاشمی سے پوچھا کہ اب بتائیں کیا کہتے ہیں ۔ نہال ہاشمی بولے کہ وکلاء کی باتوں کی تائید کرتا ہوں، میرے دوستوں نے جو بھی کہا اور جو بھی تجویز کریں گے قبول ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنا بتائیں کیا کہنا ہے ۔ ہاشمی نے کہا کہ اپنے عمل پر شرمندہ ہوں، آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق نہال ہاشمی نے کہا کہ اپنے ضمیر کے سامنے احساس رہا ہے، یہی گزارش ہے کہ درگزر کیا جائے، آئندہ گھر اور گاڑی میں بھی ایسی بات نہیں کروں گا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری معافی نامے کے الفاظ کا جائزہ لیں گے، الفاظ سے مطمئن ہوئے تو نہال ہاشمی کو معاف کر دیں گے، معافی اس کیس کی حد تک ہوگی دیگر جن افراد کے توہین عدالت کے مقدمات زیر سماعت ہیں ان کو یہ مثال نہیں ہوگی، اور یہ معافی باقی لوگوں کیلئے بھی توہین عدالت کا لائسنس نہیں ہوگی کہ وہ کہیں کہ اس کو معافی مل گئی ہے اس لیے جو دل کرے بولیں ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کے کسی اور کیس پر اس معافی کا اطلاق نہیں ہوگا، کوئی یہ نہ سمجھے ہم نے معافی کا اصول طے کرلیا ہے، توہین عدالت کے دیگر مقدمات کا جائزہ میرٹ پر لیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہال کے کیے کی سزا اس کے بچوں نہیں دینا چاہتا، نہیں چاہتا کہ اس کے خاندان پر کوئی دھبہ لگے،چاہتا ہوں کہ باضابطہ تحریری معافی مانگیں ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کل تک نہال ہاشمی اپنے الفاظ کا دفاع کر رہے تھے، نہال ہاشمی کو اپنے الفاظ کی ذمہ دار لینا ہوں گی ۔
بعد ازاں عدالت نے نہال ہاشمی کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا ۔