ججوں کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فرخ عرفان کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ دونوں ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز زیر سماعت ہیں ۔ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فرخ عرفان نے کونسل کی کارروئی عام کرنے کی درخواست کی تھی جس کو سپریم جوڈیشل کونسل نے مسترد کر دیا تھا ۔ دونوں ججوں نے اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی سربراہی جسٹس عظمت سعید شیخ نے کی جن کے سامنے ججوں کے وکلا مخدوم علی خان اور حامد خان نے دلائل دیے ۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ اوپن پبلک سماعت میں ججوں کو اپنے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر نہیں ہو سکتی ۔ وکیل نے کہا کہ کونسل کے فیصلے کے خلاف ریلیف کے لیے معزز جج کے پاس کوئی فورم دستیاب نہیں ہے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل حامد خان نے کہا کہ اوپن ٹرائل سے شفافیت کو تقویت ملتی ہے، معزز ججز نے اپنی عدالت میں مقدمات کی سماعت اوپن کورٹ میں کی، جج کے خلاف شکایت پر کونسل کی کارروائی بھی کھلی عدالت میں ہونی چاہیے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ٹرائل خفیہ نہیں ہوتا، کونسل کے ٹرائل میں صرف عوامی سماعت نہی ہوتی، جو ثبوت آتے ہیں ان کا کونسل میں جائزہ لیا جاتا ہے، شواہد کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے جو عام کر دیا جاتا ہے ۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس میں بھی کارروائی ان کیمرا کی گئی، 5 مختلف عوامل پر کارروائی ان کیمرا ہو سکتی ہے، عوامی تحفظ کے لیے سماعت ان کیمرا ہوسکتی ہے، اوپن ٹرائل سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھتا ہے، عدالت کہہ چکی ہے کہ کورٹ مارشل ٹرائل بھی اوپن ہونا چاہیے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ عدالتی معاونین کی رائے یہی ہے کہ ٹرائل اوپن ہونا چاہیے، کونسل کے ٹرائل پر اٹارنی جنرل کا موقف سننا پڑے گا ۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ حکومت کا موقف یہی ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں ہو، جوڈیشل کونسل کو آئین میں رولز بنانے کا اختیار نہیں دیا گیا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ واضح کہیں کہ کونسل کاروائی نہیں کر سکتی، ایسا فیصلہ نہ کروائیں جو بعد میں مسائل کاسبب بنے، ہم نے موجودہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل حامد خان نے کہا کہ کونسل کے ایک رکن جج کے خلاف بھی کارروائی چل رہی ہے، جس جج کے خلاف کارروائی چل رہی ہو وہ کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا، کونسل کے ایک ممبر کی رائے دوسرے پر اثرانداز تو ہوتی ہے ۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس عمر میں کون کسی دوسرے کا اثر لیتا ہے، میں جتنا مرضی چاہوں ساتھ بیٹھے جج اثر نہیں لیتے، آپ کہتے ہیں رولز نہیں تو سب ججوں کو اجازت ہے جو چاہے کریں، آپ کے موکل کو کام سے نہیں روک سکتے ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ کونسل عدالت نہیں ہے، کونسل بنیادی حقوق کا تعین نہیں کرتی، کونسل فیصلہ نہیں اپنی سفارشات دیتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل ایک منفرد ادارہ ہے، جوڈیشل کونسل ایک آئینی باڈی ہے، کونسل کی کاروائی ٹرائل نہیں بلکہ انکوائری ہوتی ہے، کونسل کی کاروائی پر 10-A کی کاروائی کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
وکیل حامد خان نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے حکومت کی نہیں ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اس کا تعین عدالت کیسے کرائے،کیا وزارت قانون سے پوچھیں؟ ۔
عدالت میں معاونین وکیل شاہد حامد اور منیر اے ملک نے بھی اپنی قانونی رائے دی اور کہا کہ ججوں کا مقدمہ بھی کھلی عدالت میں چلایا جانا چاہئے ۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔