درخواست 9 سال بعد ناقابل سماعت قرار
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے امریکی سفارتخانے کی توسیع کے خلاف دائر آئینی درخواست تقریبا 9 سال بعد ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ مقدمہ مفاد عامہ کے تحت نہیں سنا جاسکتا ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے امریکی سفارتخانے کی توسیع روکنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی ۔ 12ستمبر 2009 کو بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت آئینی درخواست دائر کی تھی ۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا ہے درخواست دائر ہونے کے بعد تقریبا دو ہفتوں کے اندر اندر کیس سماعت کیلئے مقرر ہوگیا تھا، درخواست پر 26 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں ۔
پاکستان 24 کے مطابق 8 صفحات پر مشتمل آئینی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ امریکی سفارتخانے کے پاس 38 ایکڑ زمین موجود ہے تاہم سفارتخانے کی توسیع کیلئے مزید 18ایکڑ زمین خریدنا چاہتے ہیں۔
درخواست گذار نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ امریکا اسلام آباد میں سفارتخانے کی توسیع کی آڑ میں جدید آلات سے لیس ایک ہزار امریکی فوجی کمانڈوز کی رہائش گاہ بنانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو امریکی کالونی بنایا جائے جیسا کہ جنوبی کوریا ،تائیوان ،عراق اور افغانستان میں کیا گیا ۔
درخواست گذا ر نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ غیر ملکیوں کو لیز پر دی گئی یا فروخت کی گئی زمینوں کو منسوخ کیا جائے ، کسی بیرونی ملک کو پاکستان میں فوجی یا اُس جیسا بیس بنانے کی اجازت نہ دی جائے ۔
پاکستان 24 کے مطابق مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو بیرسٹر ظفر اللہ خان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں 56 ایکڑ پر مشتمل چھوٹی سی امریکی کنٹونمنٹ بنے گی، امریکی امداد کے عوض زمین دی گئی ۔ اس پر چیف جسٹس بولے یہ پالیسی معاملہ ہے ۔ چیف جسٹس نے درخواست گذار سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے ۔ درخواست گذار نے جواب دیا یہ تحفظ کا مقدمہ ہے آرٹیکل 9 بھی موجود ہے ۔
واضح رہے آرٹیکل 9کہتا ہے کسی شخص کو زندگی یا آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرا دیکر خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس درخواست کو مفاد عامہ کے آرٹیکل 184کی شق کے تحت نہیں سنا جاسکتا ۔