گواہ واجد ضیاء کا اعتراف
Reading Time: 2 minutesاحتساب عدالت نے نوازشریف، مریم اور صفدر کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت دو اپریل تک ملتوی کردی ہے ۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں کافی مینٹل (ذہنی مشقت) ہے جس پر نیب پراسکیوٹر نے خواجہ حارث کو مینٹل قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی عمر کا تقاضہ ہے ۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی ۔ ملزمان نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور گواہ واجد ضیاء عدالت پیش ہوئے ۔ گواہ واجد ضیاء پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح شروع کی تو واجد ضیاء نے بتایا کہ کہ سپریم کورٹ کو ملنے والی تمام درخواستوں کے جائزے کے بعد جے آئی ٹی نے تفتیش شروع کی، شریف خاندان کے جواب میں جیری فری مین کا خط موجود تھا، جس میں جیری نے حسن نواز کی کومبر گروپ، نیلسن اینڈ نیسکول سے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ پر 2 جنوری 2006 میں دستخط کی تصدیق کی ۔
واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے براہ راست نہیں بلکہ قانونی مشیر کے ذریعے جیری فری مین سے رابطہ کیا، جے آئی ٹی کا سوالنامہ بھیجنھے پر اتفاق ہوا لیکن انہیں پاکستان آنے کا نہیں کہا تھا ۔ وکیل خواجہ حارث کے گلف سٹیل سے متعلق سوال پر واجد ضیا نے بتایا کہ ہماری تفتیش اور دستاویزات کے مطابق گلف سٹیل مل 1978 میں بنی، کنٹریکٹ کی تصدیق کرائے بغیر اس کے مندرجات کو تسلیم کیا، اس مل کے معاہدے کے گواہ عبدالوہاب سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، 1980 کے معاہدے کے تصدیق کار پاکستانی قونصلر منصور حسین سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے پاس ایسی کوئی دستاویزات نہیں جس پر سپریم کورٹ کی مہر ہو، بتایا کہ کچھ مزید کہنا چاہتا ہوں جس پر جج نے کہا کہ اب آپ اور نہ بولیں ۔ وکیل خواجہ حارث کے شارجہ سے جدہ اسٹیل مل کی مشینری بھیجنے کے سوال پر واجد ضیاء نے بتایا کہ مشینری شارجہ سے جدہ بھجوانے والا خط جے آئی ٹی نے دیکھا تھا، گواہ واجد ضیا نے تسلیم کیا کہ اسکریپ شارجہ سے جدہ گیا جبکہ جے آئی ٹی نے تصدیق کیلئے دبئی حکام کو لکھا تھا ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ سکریپ نہیں، استعمال شدہ مشینری تھی ۔
عدالت میں دفاع کے وکلا کی گواہ واجد ضیاء پر جرح جاری ہے ۔ کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔