پاکستان پاکستان24

لاپتہ افراد کہاں گئے؟ جسٹس اعجاز افضل

اپریل 2, 2018 4 min

لاپتہ افراد کہاں گئے؟ جسٹس اعجاز افضل

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ جاننا چاہتے ہیں لوگ کس قانون، کس الزام میں زیرحراست ہیں ۔

لاپتہ افراد کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار نے بتایا کہ کمیشن نے اب تک 3219 کیسز کو نمٹایا ہے، ہمارا مینڈیٹ صرف تلاش کی حد تک یے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کا کام شائد ختم ہو گیا ہے لیکن عدالت کا کام ختم نہیں ہوا، پتہ چلنا چاہیے کہ ان پر کوئی مقدمہ ہے یا نہیں، جاننا چاہتے ہیں یہ لوگ کس قانون کے تحت کس الزام میں زیرحراست ہیں ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر کوئی شخص بازیاب ہوتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس پر کیا الزام تھا، کیا اس کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا، کیا اس کا ٹرائل ہوا؟ ۔ ہم زیر حراست رکھنے کہ وجوہات جاننا چاہیں گے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق  ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ پیش کی گئی رپورٹ کے کچھ پیراگراف عام نہ کیے جائیں ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق تمام افراد زیر حراست نہیں تھے، ہر ایک لاپتہ کی الگ الگ تفصیل سے آگاہ کریں، کیا ان افراد پر انسداد دہشت گردی کی دفعات عائد کی گئی؟ ۔ ساجد الیاس نے بتایا کہ جن افراد کے ایڈریس معلوم نہ ہوسکے ان کے کیس بھی کمیشن نے نمٹا دیے ہیں ۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ان میں سے توبہت سے افراد اب بھی لاپتہ ہیں لیکن ان کے کیسز نمٹا دیے گئے ہیں ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر جبری گمشدگی نہیں تو بتایا جائے وہ لوگ کہاں گئے؟ ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق  جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ کمیشن کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ معاملہ جبری گمشدگی کا ہے یا نہیں، کس وجہ سے بہت سے افراد کے کیسز میں کمیشن اس نتیجے پر پہنچا؟ ساجد الیاس نے بتایا کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر انحصار کیا جاتا ہے ۔

لاپتہ افراد کیلئے کام کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ عدالت حکومت سے کئی سالوں سے سادہ سا سوال پوچھ رہی ہے کہ کل کتنے افراد زیر حراست ہیں، ہر سماعت پر یہی پوچھا جاتا ہے کہ اٹھائے گئے افراد پر الزام کیا ہے؟ چھ ماہ میں عدالت کو یہ نہیں بتایا جا سکا ۔ ساجد الیاس نے بتایا کہ فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے رشتہ داروں کو الزام کا بتایا جاتا ہے اور ان کی ملاقات بھی کرائی جاتی ہے ۔

جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ عدالت نے مقدمات کے بارے میں جان کر خود کومطمئن بھی کرنا یے، کہیں نہ کہیں، کسی نے کسی نے بتانا ہے کہ لاپتہ افراد کدھر ہیں، ریاست نےبتانا ہے کہ لاپتہ افراد کدھر ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق ساجد الیاس نے کہا کہ ملزمان کی سیکورٹی کی وجہ سے معلومات اور الزامات کو خفیہ رکھا جاتا ہے ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ عدالت میں اپنی رپورٹ کی سمری بنا کر دیں ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حبس بے جا کا قانون اسی لیے ہے، بتایا جائے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت رکھا گیا، ہمیں اپنے ضمیر کو مطمئن کرنا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت کو آمنہ مسعود نے بتایا کہ چو آ سیدن شاہ کی کوئلہ کان سے لاپتہ کئے گئے سوات کے دو بھائیوں عمر بخت اور عمر حیات کے بارے میں سیشن جج چکوال نے انکوائری رپورٹ بھی دی تھی ۔ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے، اس میں آئی ایس آئی کا نام آیا تھا کہ بشارت اڈا سے اٹھایا گیا، جس پولیس اے ایس آئی محمد شبیر نے ان دونوں بھائیوں کو کان کے مالک عامر فاروق سے لے کر آئی ایس آئی کے اہلکار محمد انور کے حوالے کیا اس نے انکوائری کے سامنے بیان بھی دیا ۔ یہ رپورٹ پندرہ اگست دو ہزار تیرہ کو آئی تھی ۔ چکوال کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سردار طاہر شبیر کے دستخط سے جاری کی گئی تھی ۔ آئی ایس آئی نے بتایا کہ اس کا مذکورہ افسر اس دوران راولپنڈی میں کورس کر رہا تھا، تاہم پولیس افسر نے کہا تھا کہ اس نے کارڈ دیکھ کر دونوں بھائیوں کو آئی ایس آئی کے حوالے کیا تھا ۔ آمنہ مسعود نے کہا کہ اگر آئی ایس آئی ملوث نہیں تھی تو لاپتہ افراد کمیشن نے پانچ سال میں اس کیس میں کیا پیش رفت کی؟ اب یہ اس عدالت پر ہے ۔

جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کون لاپتہ کرنے میں ملوث ہے؟ آمنہ مسعود نے کہا کہ میں خود چکوال گئی تھی،کوئلے کی کان میں کام کرنے والے کئی افراد سے بات کی، یہ صرف ان دو بھائیوں کی کہانی نہیں، وہاں درجںوں افراد نے کہا کہ یہ معمول ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع کے حکام نے ان دونوں بھائیوں کے والدین کو رقم دینے کی پیش کش کی مگر تنگ دستی اور فاقوں کے مارے بوڑھے والدین نے کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کو نہیں بیچ سکتے ۔  ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے کہا کہ میں اس کی رپورٹ منگوا لیتا ہوں ۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ پیش ہوتے ہیں مگر پتہ نہیں ہوتا ۔

ایک اور لاپتہ فرد کے مقدمے میں وزارت دفاع کے کرنل نے عدالت کو بتایا کہ پروڈکشن آڈر کر دیے گئے ہیں اب کیس ختم کر دینا چاہیے ۔ آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ پروڈکشن آڈر پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ لاپتہ افراد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، جب لوگوں کے جوان بچے لاپتہ ہوں تو ریاست کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیوں لاپتہ ہوئے اور کس کے پاس ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا ریاست کا کوئی نظام ہے کہ جو لوگ لاپتہ ہوئے وہ کدھر ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں اور عدالت کو بتائے کہ یہ افراد کہاں ہیں ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق سپریم کورٹ نے فوج کے حراستی مراکز میں موجود تمام افراد کی فہرست طلب کر لی ہے ۔ عدالت نے پوچھا کہ کتنے افراد سکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں اور ان پر کیا الزام ہے ۔ حکومت کو تین ہفتے میں رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے