کمرہ عدالت میں ایک ہزار افسر
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں افسران کی دہری شہریت کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت ایک ہزار افسران کی موجودگی سے تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی جبکہ عدالت کی پارکنگ میں سیکورٹی دروازے کے باہر سینکڑوں سائل قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہے ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ کمیٹی کی جانب سے سپلیمنٹری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی ۔ پاکستان 24 کے مطابق سرکاری وکیل نے بتایا کہ ہم نے عدالتی حکم پر اخبار میں اشتہار دے دیا تھا ۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے کہا کہ 18 مارچ تک 182090 افسران کا ڈیٹا اکٹھا کیا، 36 ہزار مزید افسران کا ڈیٹا موصول ہوا ہے، 150933 افسران کا ڈیٹا جانچا گیا، آج تک 655 افسران نے خود دہری شہریت کا بتایا _ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ 5 افسران کی فارن شہریت ہے، 665 افسران کی اہلیہ دوہری شہریت کی حامل ہیں، 82 افسران کی اہلیہ دوہری شہریت فارن نیشنل ہیں، 254 افسران کی دوہری شہریت رکھتے ہیں اہلیہ پاکستانی ہیں، 321 افسران اور ان کی بیگمات دوہری شہریت کے حامل ہیں، 152 افسران نے دوہری شہریت چھپائی ۔
بشیر میمن نے کہا کہ گریڈ 17کے افسران کی تعداد 6 لاکھ سے زائد ہے ۔ پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جن اداروں نے تعاون نہیں کیا ان کو بلا لیتے ہیں ۔ بشیر میمن نے کہا کہ ان اداروں کی فہرست دے دیتے ہیں _ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے دہری شہریت چھپانے والوں کا کیاجواب ہے، صبح سے رات گیارہ تک کام کریں گے تومعاملہ دنوں میں حل ہوگا، کیاصرف فارن نیشنل عدالت میں موجود ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 19ممالک کے ساتھ دہری شہریت معاہدہ ہے، شناختی کارڈ تو دھوکے سے بھی بن جاتے ہیں ۔ پاکستان 24 کے مطابق ڈی جی نے بتایا کہ عدنان محمود، مینہ، شرجیل مرتضٰی فارن نیشنل ہیں، مراکو میں تعینات پاکستانی سفیر بھی برطانوی شہریت کے حامل ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا سفیر پاکستان کے مفادات کیلئے کیا کام کرے گا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو عدالت کو سچ نہیں بتائے گا معطل کر دیں گے، سرکاری افسران سے سچ چھپانے کی توقع نہیں، جھوٹ بول کرسرکاری نوکری کرنے والے دھوکے باز ہیں ۔ ڈی جی نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے 53755، پختونخوا نے 1350 افسران کے کوائف فراہم کئے، بلوچستان نے 13511 اور سندھ نے 211 افسران کا ڈیٹا دیا ۔
اس دوران عدالت میں موجود سینکڑوں افسران میں سے کئی نے ہاتھ کھڑے کر کے کہا کہ ایف آئی اے نے غلط رپورٹ پیش کی ہے جبکہ عدالت کے احکامات کے بعد اخبارات میں شائع کی گئی فہرست میں بھی بہت سی غلطیاں ہیں، کئی افسران نے کہا کہ وہ دہری شہریت نہیں رکھتے مگر ان کا نام شامل کیا گیا ۔ بعض افراد نے شکایت کی کہ وہ نجی شعبے سے منسلک ہیں مگر ان کے نام شامل کئے گئے ہیں ۔ عدالت میں ہجوم اور شور کی وجہ سے چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام افسران آڈیٹوریم میں چلے جائیں ۔ جن کو شکایت ہے ڈی جی ایف آئی اے ایسے افسران سے شکایتیں سنیں ۔
اس دوران خواتین افسران نے چیف جسٹس سے مکالمہ بھی کیا ۔ ایک خاتون افسر نے کہا کہ خوش قسمتی ہے اس کیس کے بہانے آپ کو دیکھ رہے ہیں، خوشی ہے کہ آپ جیسے لوگ اس ملک میں ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ مجھے شرمندہ نہ کریں ۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو شکایت سن کر فہرست تیاری کے لیے مہلت دیدی ۔
وقفے کے بعد ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ 78 افسران کا موقف ہے کہ شہریت ظاہر کی تھی، 24 افسران سے پوچھا ہی نہیں گیا، بعض ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ وہ دوسرے ملک میں پیدا ہوئے، کچھ افسران کا موقف ہے کہ وہ کانٹریکٹ ملازمین ہیں ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی تضحیک کے لیے یہ کارروائی نہیں کر رہے، دہری شہریت کے حامل کس جگہ تعینات ہیں یہ جاننا بھی ضروری تھا، دہری شیریت کے باوجود آپ پاکستانی ہیں، افسران اپنے ذہن پر بوجھ نہ لیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا نے ایمانداری سے ترقی کی ہے، وہ قومیں ہمارے دینی اصول اپنا کر آگے نکل گئی ہیں ۔ ہم اس کام کو جلد مکمل کریں گے، کچھ ججز بھی دہری شہریت رکھتے ہیں ان کو نکالا تو نہیں گیا، تحقیقات کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں ہے، اس حوالے سے ابھی تک قانون بھی موجود نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہری شہریت کے معاملے میں بہت کم لوگوں نے عدالت پر اعتماد کیا ہے، سچ نہ بولنے والوں کے خلاف کاروائی ضرور ہوگی ۔
سماعت غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔