عدالتی ڈرائیور کی تنخواہ 35 ہزار
Reading Time: 2 minutesکوئٹہ سپریم کورٹ رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت گورننس میں ناکام ہے یہاں ڈاکٹر کی تنخواہ 24 ہزار ہے، ہمارے (سپریم کورٹ) ڈرائیور کی تنخواہ 35 ہزار ہے ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے بلوچستان میں تعلیم، صحت اور صاف پانی کی عدم فراہمی پر لیے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ عدالت کے بلانے پر سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور نواز ثنا اللہ زہری پیش نہیں ہوئے، عبدالمالک بلوچ کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے ۔
چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان سے پانی فراہمی پر رپورٹ سے متعلق استفسار کیا، جس پر بتایا گیا کہ کابینہ اجلاس ہوا ہے، ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی ۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پالیسی تیار کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے ۔
ینگ ڈاکٹرز کے مسائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکٹرز کو تنخواہ ادا نہیں کی گئی، مشکل سے ہڑتال ختم کرائی ہے ۔ سیکرٹری صحت صالح ناصر نے کہا کہ ہاؤس جاب کرنے والوں کو ہر دو ماہ بعد وظیفہ دیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے اور یہاں آپ ڈاکٹرز کو 24 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں، جب تک ڈاکٹرز کی تنخواہ ادا نہیں ہوتی، آپ کی تنخواہ بند ہے ۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ بہت زیادہ چالاک آدمی ہیں، کارکردگی سے مطمئن نہیں، آپ نے اسپتالوں کی حالت دیکھی ہے؟ سول اسپتال میں ایک بھی ایم آر آئی مشین نہیں ہے، اسپتالوں میں آلات بہتر رکھیں اور ان کی حالت بہتر بنائیں ۔ وزیراعلیٰ کو بتائیں ان کے جائز مطالبات تسلیم کریں ورنہ ہمیں کچھ تو کرنا ہوگا۔
دوران سماعت صوبائی سیکرٹری تعلیم نزیر آغا ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے زیر انتظام ایک ہزار 135 پرائمری اسکول ہیں، صوبے کے 50 فیصد پرائمری اسکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اور ہائی اسکولوں میں ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی حکومت گورننس میں ناکام ہے، میں تو سمجھتا تھا سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں، بلوچستان میں تعیلم کی صورتحال سندھ سے بھی بدتر ہے ۔
عدالت نے دونوں سابق وزرائے اعلی کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد طلب کرتے ہوئے مقدمہ ملتوی کر دیا ۔