فاٹا انضمام، مولانا کے ہمنواؤں سے
Reading Time: 4 minutesکرم الہی- پشاور
فاٹا خیبر پختونخوا انضمام پرجہاں ایک طرف جشن کا سماں ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس فیصلے پر شادماں ہیں، وہاں چند افراد ایسے بھی ہیں جن کو اس تاریخی فیصلے سے بڑی مایوسی ہوئی ہے—پختونستان کے بھولے بسرے اور بکھرے ہوۓخواب کےشیدائی محمود خان اچکزئی اور اشرف غنی کی مخالفت توکسی قدر سمجھ میں آتی ہے—لیکن مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی—ان کے کیمپ سے فاٹا کے الگ صوبہ بننے کے حق میں جو جنت نظیر تخیلاتی مناظر بیان کیۓ جارہے ہیں انہیں سن کرایک عام آدمی سوچنے لگتا ہےکہ انضمام کی آڑ میں فاٹا والوں کے ساتھ شاید بڑی زیادتی ہوئی ہے—
سوال یہ ہے کہ مولانا کا تعلق فاٹا سے ہے ہی نہیں، تو پھر وہ اتنے بے چین کیوں ہیں؟ اس کا سادہ اور مختصرجواب یہ ہے کہ فاٹا کے انضمام سے مولانا کے سیاسی طورپرشدید نقصان پہنچا ہے—
(1):- پہلی بات یہ کہ فاٹا کے صوبہ بننے کی صورت میں مولانا بجا طورپرامید کرسکتے تھے کہ انہیں وہاں حکومت مل جاتی—صرف صوبائی حکومت نہیں ملنی تھی، قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ممبران، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ، اور گورنری سمیت بہت سا مال غنمیت ملنے کی امید تھی – ساتھ ساتھ اپنے نظریۓ اور عقیدے کے نفاذ کا بھی ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا تھا—
(2):- انضمام کے بعد مولانا کی جماعت صوبہ خیبر پختونخوا میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکتی جو اسے فاٹا کے الگ صوبہ بننے کی صورت میں حاصل ہونا یقینی نظرآرہا تھا—
(3):- مولانا نے ابتداء ہی سے انضمام کی مخالفت جاری رکھی اور اسی سبب فاٹا کی انضمام کے ذریعے قومی دھارے میں شمولیت تاخیرکا شکار ہوئی—اب مولانا کی مرضی کے بغیر انضمام کے فیصلے سےجہاں ایک طرف ان کی شدید سبکی ہوئی ہے وہاں فاٹا کے عوام کے سامنے ان کی کریڈیبیلٹی بھی مجروح ہوئی ہے— مولانا ایک ایسے فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں جس کو فاٹا اور باقی ملک کے عوام نے بڑے پیمانے پر سراہا ہے —الیکشن قریب آںے کی وجہ سے مولانا کا یہ چیلنج اور بھی مشکل ہوگیا ہے کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کےاعتماد کو قائم رکھ سکیں –
اپنی تمام تر مساعی کے باوجود مولانا کا یہ خواب شرمندہ تعمیر نہ ہوسکا—لیکن مولانا ہے تو سیانا سیاست دان— وہ اس خواب کا بالجہرتذکرہ کرنے کی بجاۓ اس بات پر زیادہ زورد یتے رہے کہ فاٹا کے عوام سے پوچھا جاۓ—جب اس سے بات نہ بنی تو آخر میں شوشہ چھوڑا کا انضمام امریکی سازش اور ایجنڈا ہے—امریکی ایجنڈا اور یہودی ایجنٹ جیسے آزمودہ الزامات بھی اس دفعہ مولانا کے کام نہ آۓ—
امریکی ایجنڈے اور یہودی لابی کی سازش کا معاملہ مولانا پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کے اثبات میں ٹھوس شواہد پیش کریں— فی الحال ہم بات کرتے ہیں ریفرینڈم کے مطالبے پر— مولانا کے ایک پیروکارنے ریفرینڈم کے حق میں بہت کچھ لکھ بھی ڈالا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی اور لوگوں کی طرح موصوف کوبھی ریفرینڈم کے حوالے سے آئینی صورت کا علم نہیں—
لگ بھگ ایک سال پہلے اسلام آباد میں سیفران کی مدد سے فاٹا انضمام کے حوالے سے ایک قومی سیمینار میں مجھے اس مسلے کے آئینی پہلووں پر پریزنٹیشن دینے کی ذمہ داری دی گئی— سیمینارمیں افراسیاب خٹک، بشری گوہر، سابق سفیر ایازوزیر، ایم این اے شہریارآفریدی، سابق چیف سیکریٹری خالدعزیز، سینیزوزیرعنایت اللہ خان، سمیت بڑی تعداد میں سیاست دانوں، بیورکریٹس، سول سوسائٹی کے نمائندوں، صحافیوں، اکیڈیما اور سکالرز نے شرکت کی — وہاں بھی ایک دو اصحاب نے ریفرنڈم کی بات کی تھی—
گذراش یہ ہے کہ ریفرنڈم آئین کے آرٹیکل 48 کے ذیلی دفعہ 6 کے تحت صرف اور صرف وزیر اعظم ہی پالیمان کے مشترکہ اجلاس سے دوتہائی اکثریتی ووٹ ملنے کے بعد کسی قومی مسلے پر منعقد کراسکتا ہے— لیکن مشکل یہ ہے کہ آئین کےآرٹیکل 247 کے تحت فاٹا صدرکے اختیار میں آتا ہے، نہ کہ وزیراعظم کےاختیار میں(اکتسویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ آرٹیکل حذف ہوچکا)—
دوسری بات یہ ہے کہ فاٹا پر ریفرینڈم کی آخر ضرورت کیا تھی؟ آئین کے آرٹیکل 247 ذیلی آرٹیکل 6 کے تحت صدر پاکستان کواختیار تھا کہ وہ جیسے مناسب سمجھے قبائیلیوں کی راۓ سے یہ فیصلہ کردے کہ فاٹا کلی طورپر یا جزوی طورفاٹا نہ رہے— اب آئین نے یہ فیصلہ صدر کے صوابدید پر چھوڑا تھا کہ جیسے چاہے قبائل کی راۓ معلوم کرے—یعنی وہ جرگہ سے پوچھے، قبائلی ممبران پارلیمنٹ سے راۓ لے، یا کسی اور طریقے سے قبائل کی راۓ جانے—
تیسری بات یہ ہے کہ فاٹا کے انضام کے پیچھے کسی خلائی مخلوق کا نہیں بلکہ فاٹا کے عوام اور ان کے نمائندوں کی بھرپور راۓ شامل ہے— یہ راۓ ایک دفعہ نہیں باربار سامنے آئی ہے—سرتاج عزیزکمیٹی نے تو ہر ایجنسی ہیڈکوارٹر میں قبائیلی مشران سے تفصیلی جرگے منعقد کرکے ان کی راۓ معلوم کی—وہ رپورٹ تصاویر کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ ہے— اس سے قبل بھی اسی طرح کی راۓ کئی رپورٹس میں بھی ریکارڈ ہوتی چلی آئی ہے جو فاٹا کے مستقبل کے حوالے سےبنائی گئی ریفارمز کیمٹیاں اوردیگر فورمز وقتا” فوقتا متعلقہ اداروں کو دیتےآئے ہیں—
چوتھی اور سب سے اھم بات یہ ہے کہ فاٹا کا کشمیر کے ساتھ موازنہ سراسر جاہلانہ کام ہے—آئینی طورپرکشمیر پاکستان کا حصہ ہے ہی نہیں، جبکہ فاٹا آرٹیکل 1کےتحت پاکستانی فیڈریشن کا باقاعدہ حصہ رہا ہے—کشمیر کی طرح فاٹا کے حوالے سے کوئی تنازعہ کسی بھی بین الاقوامی فورم پرزیر التوا نہیں ہے— کشمیر کے برعکس فاٹا کے حوالے سے پاکستان کسی بھی فورم ،دستاویز، قانون یا اصول کے تحت پابند نہیں کہ وہ استصواب راۓیا ریفرینڈم کراکر اس کے مستقبل کا ازسرنوفیصلہ کرے—کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی قانون کے تحت حل طلب ہے جبکہ فاٹا پاکستان کا ایک خالصتا” انتظامی اور اندرونی معاملہ ہے—فاٹا کےلیۓ ریفرینڈم کا مطالبہ کرنا نہ صرف آئینی اور قانونی اعتبار سے قطعی لایعنی بات ہے بلکہ سیاسی نکتہ نظر سے بھی خطرناک ہے—اگر آپ نےفاٹا کے معاملے میں ریفرینڈم کے اصول کو مان لیا تو کل کلاں کسی بھی وفاقی اکائی یا زیلی علاقے سےریفرینڈم کا مطالبہ آسکتا ہےاور پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں —اجتماعی خودکشی کے اس راستے پر چل پڑنے کی آخر ضرورت کیا ہے؟
جہاں تک مولانا کے بکھرےہوۓ خواب کا تعلق ہے ہم اسےایک خواب پریشاں سمجھتے ہیں جو اگر کسی طرح سےحقیقت کا روپ دھاربھی لیتی تو طالبان سٹائل طرزحکومت کا نظارہ پیش کرتی —اتنی طویل قربانیوں کے بعد پاکستان، خیبر پختونخوا اور خود فاٹا کے عوام کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوتا!—