پاکستان

ظلم کے خلاف بھی ڈیم بنائیں

دسمبر 21, 2018 4 min

ظلم کے خلاف بھی ڈیم بنائیں

Reading Time: 4 minutes

چیف جسٹس صاحب! ظلم کے خلاف ڈیم بنائیں

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر) کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ڈی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ڈی ایچ آر کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ،فرحت اللہ بابر،افراسیاب خٹک،طاہرہ عبداللہ سمیت سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئے ۔

لاپتہ افراد کے ورثاء معمر خواتین و حضرات اور چھوٹے بچے بھی موجود تھے اور اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر اٹھائے انکی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے ۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ہم نے کئی ادوار حکومت دیکھے.ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کتاب کا ایک چیپٹر ہے مین ہنٹ یعنی انسانوں کا شکار، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے انسانوں کا شکار کیا اور ڈالر وصول کئے، وہ کہتا ہے کہ ڈالر حکومت نے وصول کئے.کسی غیرت مند کی حکومت ہو تو اسے اسکا نوٹس لینا چاہیئے. عمران خان کو اس بارے میں اپنا موقف دینا پڑے گا، وہ ڈالر واپس امریکہ کے منہ پر ماریں جائیں اور ہمارے بندے واپس کئے جائیں، پھر جمہوری دور اور زرداری صاحب کی حکومت آئی اور وہی ڈکٹیٹر کی پالیسیاں جاری رہیں.لوگ لاپتہ ہوتے رہے،بچے اپنے باپوں کی راہ دیکھتے رہے.کسی آرمی افسر کو سزا نہ ملی.قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جہاں انصاف ہو.پھر نواز شریف کا دور آیا تو انہوں نے حد کر دی.زرداری دور میں ہم نے دھرنا دیا تو ہمیں کسی نے نہیں کہا کہ یہاں سے اٹھو لیکن نواز شریف دور میں ہمیں ایک دن بھی برداشت نہ کیا اور مجھ پر بدترین تشدد ہوا میرا فون ضبط کر لیا گیا، اب ہم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے.اگر وزیراعظم نے مسئلہ حل نہ کیا تو یہ حکومت نہیں چل سکتی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حکومت عدلیہ اور فوج ایک صفحے پر ہیں.وزیراعظم صاحب آپ کے لئے یہ نادر موقع ہے.انہوں نے کہا کہ بہت سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے.کچھ کو جعلی مقابلوں میں مار کر چھپ کر دفنا دیا جاتا ہے، پھر کوئی تلاش کرے تو قبریں دکھا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے نکالنا چاہو تو نکال لو۔

سنیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا سلام ہے آپ لوگوں کی جدوجہد کو گذشتہ ایک عشرے سے ذیادہ اسی سڑک پر ورثاء کے چہروں پر جھریاں آ گئی ہیں.اسی سڑک پر وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے وعدہ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا قانون لائیں گے.ہم نے کہا تھا ہماری جماعت حمایت کرے گی،لیکن قانون لانا تو کجا اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو جس میں ورثاء کو معاوضہ دینے اور اعلی حکام پر جرمانہ عائد ہوا تھا اسکے خلاف اپیل دائر کر دی ہے.ہم نے کہا تھا اپیل میں نہ جاو.حکومت اپیل واپس لے.انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کمیٹی میں چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے ہزاروں لوگ بازیاب کروائے تو جبری گمشدگی میں ملوث کسی کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی.اس پر چیئرمین کمیشن نے کہا کہ سیکورٹی اداروں کے 153 لوگ ملوث پائے گئے ہیں اگر 153 لوگ سیکورٹی اداروں کے ملوث ہیں تو ان لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں.اگر کمیشن چیئرمین یہ اعتراف کرنے کے باوجود مزید کاروائی نہیں کر رہے تو شہری اور ریاست کا سوشل معاہدہ بریک ہونے کا خدشہ ہے.اس دن سے ڈور جب شہری اور ریاست کے دوران سوشل کنٹریکٹ بریک ہوتا ہے تو سیلاب آتا ہے.افراسیاب خٹک نے کہا کہ حکومتیں بدلتی رہیں اس مسئلے کی نوعیت نہیں بدلی.گذشتہ سال کی نسبت اس سال ذیادہ لوگ لاپتہ ہوئے.یہ مسئلہ گھمبیر ہو رہا ہے انہوں نے فیض کا شعر پڑھا
میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اب سامنے آ گیا ہے کہ اسکے پیچھے کون ہے جب عمران خان نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جنرل باجوہ سے بات کی ہے تو انہیں پتہ ہے کہ مسئلہ کہاں ہے.اسی لئے عدلیہ ناکام رہی.شیریں مزاری نے یہاں کہا تھا اغواء کاروں پر مقدمے چلیں گے.قانون بنے گا تاحال اسکی شروعات نہیں ہوئیں.ملوث افراد کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے. اعلی عدلیہ اور انتظامیہ ناکام ہیں تو کس سے انصاف مانگیں گے.انہوں نے کہا یہاں کھڑے بچوں کو انصاف دیں.لاپتہ افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کئے جائیں اور اسکی توثیق کی جائے.تبدیلی اسوقت آئے گی جب لاپتہ افراد واپس آئیں گے اور اغواءکاروں کے خلاف مقدمات چلیں گے.چیف جسٹس صاحب آپ کو ڈی چوک پر یہ لوگ نظر نہیں آتے ظلم کے خلاف ڈیم بنائیں.ہر لاپتہ فرد کو بازیاب کروایا جائے اور ریاستی دہشت گردی میں ملوث کے خلاف مقدمات چلائے جائیں.سول سوسائٹی کی نمائندہ طاہرہ عبداللہ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط اور اسکی توثیق کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے ادوار دیکھے جنرل ضیاء کا جنرل مشرف کا کالا دور دیکھا.جنرل ضیاء نے بہت سیاہ کام کئے لیکن انہوں نے پاکستانیوں کے عوض ڈالر وصول نہیں کئے۔

ورثاء نے فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک کا مظاہرے میں شریک ہونے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ طویل عرصے سے انکے ساتھ کھڑے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی انکی آواز بنے.ایسے لوگوں کی پارلیمنٹ میں ضرورت ہے ۔

کسی شاعر کا قطعہ یاد آ رہا ہے بعنوان عدل

زندگانی کا کھلا پن عدل سے مشروط ہے
شہر کیا ہے -جیل خانے میں اگر آباد ہے
عدل-تسخیرات احکامات کی بنیاد ہے
ملک وہ آذاد جس کی عدلیہ آزاد ہے

رستم ستی

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے