جسٹس آصف کھوسہ کا انکشاف
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے ایک مقدمے کے دوران انکشاف کیا ہے کہ ماتحت عدالتوں کے ججون کی تربیت کرنے کیلئے جوڈیشل اکیڈمی میں موجود ایک انسٹرکٹر کہتا ہے کہ قتل کے مقدمات کے فیصلے کرنا آپ کا کام نہیں ہے ۔
گجرات میں دو افراد کے قتل کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل سنتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے برعکس ایف آئی آر درج کی گئی، بظار پولیس نے ریکارڈ میں گڑ بڑ کی ہے، یہ چیز ماتحت عدالتوں میں ہی سامنے آ جانی چاہیئے ۔ جسٹس آصف کھوسہ نے انکشاف کیا کہ جوڈیشل اکیڈمی میں انسٹرکٹر بیٹھا ہوا ہے اور زیر تربیت ججز کو کہا جاتا ہے قتل کے مقدمے کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں، حیرت ہے ججز کی اس طرح تربیت کی جارہی ہے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ملزم محمد منیر کو سات سال بعد رہا کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ایسے شواہد پیش نہیں کر سکا جو کسی شبے سے بالاتر ہوں، ملزم محمد منیر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کیا جاتا ہے ۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے مالاکنڈ میں قاتلانہ حملہ کیس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے صابر شاہ کو 6 سال بعد بری کر دیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ ٹرائل عدالت میں وقوعہ ثابت نہیں ہو سکا، ملزم صابر شاہ پر الزام تھا کہ اس نے نیک محمد کو چھ گولیاں ماریں، نیک محمد معجزانہ طور پر بچ گیا ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حملے کی جو وجہ ایف آئی آر میں درج ہے بظاہر ٹھیک معلوم نہیں ہوتی، دو گواہان صالح محمد اور ریاض شاہ گواہی کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہوئے، پولیس کی تفتیش بھی دشمنی کی وجہ بیان نہیں کرتی، ہو سکتا ہے یہ غیرت کا معاملہ ہو ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالت میں بیٹھے افراد کو بتایا کہ یہ 2018 کی اپیل ہےاور 2018 میں ہی سن رہے ہیں، فوجداری مقدمات میں 24 سال پرانی اپیلیں نمٹا دی ہیں، کئی اپیلیں 1994 سے زیر التوا تھیں ۔