پرانی کہانی کی نئی اقساط تو نہیں؟
Reading Time: 4 minutesفہد عزیز کے ساتھ
کہانی شروع ہوئی 22 مئی 2013سے جب نواز شریف نے پاکستان میں چین کے تعاون سے چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کی بنیاد رکھی ۔ اس دن اس ملک کی تاریخ کا ایک نیا باب کھل گیا جس سے مستقبل قریب میں اس ملک میں ترقی کی نئی تاریخ رقم کی جائے گی ۔
اس راہداری پر مال بردار ٹرالر چل پڑے تو ملک کی مجموعی درامدات اور برامدات میں تاریخی اضافی دیکھنے میں آئے گا اور وہ وقت دور نہیں جب معاشی طور پر پاکستان ایک خود مختار ملک کہ طور پر ابھرے گا ۔
سی پیک کے اس اثاثے کا ایک رُخ تو اس کے بے شمار فوائد اور مقاصد ہیں تو دوسری جانب اس منصوبے سے جڑے کچھ علاقائی اثرات کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔
جغرافیائی نظر سے اس منصوبے کو دیکھا جائے تو اس کا کچھ حصہ پاکستان کے ایک ایسے علاقے سے گزر رہا ہے جو ماضی اور حال دونوں میں عالمی طور پر متنازع رہا ہے۔
اس منصوبے کا سنگ بنیا رکھنے سے پہلے ہی مقامی سیاسی حلقوں کے علاوہ قبائل میں بھی اس منصوبے سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے ۔
جیسا کہ نمبر ایک :
اس منصوبے کی سربراہی کو ن کرے گا؟
جغرافیائی لحاظ سے اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ کسے پہنچایا جائے گا ؟
اس منصوبے سے اس ملک کا سب سے اہم صوبہ منسلک ہے تو اس کے لوگوں کو کس طرح اس سے مستفید کیا جا سکے گا ؟
بلوچستان میں بسنے والے قبائل کے ساتھ ماضی کی تاریخی زیادتی تو نہیں دہرائی جائے گی ؟ وغیرہ وغیرہ
ان سوالوں کے جنم لینے سے آج تک تسلی بخش جواب کسی کو نہیں ملے ۔ اس کہ برعکس اس قوم سے کچھ اور سوالات پوچھے جا رہے ہیں ۔
حالیہ عرصے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشتگردی کی مختلف کارروایئاں دیکھنے میں ائیں ۔
سب سے پہلے واقع میں کوئٹہ کی سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا جس میں 20 کے لگ بھگ شہری شہید ہوئے ۔ نشانہ ہزارہ برادری تھی ۔
دوسرا واقع مکران کے علاقے میں پیش آیا جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس چند افراد نے ایک بس کو نشانہ بنایا اور 15 سے زائد مسافروں کو گولی مار دی گئی ۔ وزیر خارجہ کے مطابق ان کا تعلق پاکستان نیوی سے تھا ۔
ایک واقعہ قلع عبدللہ میں پیش آیا جہاں بم دھماکے میں قبائلی سردار سمیت 3 افراد ٍشہید کیے گئے۔
ان حملوں میں رمضان کے دوران نماز تراویح کے لئے جانے والے نمازیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں پانچ پولیس اہلکار شہید ہو گئے ۔
پھر ایک بڑا واقعہ گوادر کے پی سی ہوٹل میں پیش آیا جس میں چند حملہ آوروں نے ہوٹل میں رہنے والوں کو یر غمال بنانے کی کوشش کی اور ان سے نمٹنے کے لیے پاک فوج نے بروقت کارروائی کی اور ہوٹل کو کلیئر کروا لیا ۔
اس اپریشن کے دوسرے روز پاکستانی میڈیا پر اس حملے کا ایک پہلو سامنے لانے کی کوشش کی گئی جس میں حمال مری نامی ایک شخص جو بلوچستان سے مسنگ پرسن کی فہرست میں شامل ہے کو حملہ آور بنا دیا گیا ۔ اس طرح ایک ہوا چلائی جاتی ہے کہ اب مسنگ پرسن لاپتہ نہیں رہے بلکہ وہ سب دہشتگردوں سے جا ملے ہیں ۔
خوش قسمتی سے پاکستانی میڈیا کے زمہ دار صحافیوں کی کھوج سے یہ ثابت کیا گیا کہ وہ حمال خان مری جس کا زکر کیا جا رہا ہے اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اب بھی کاپتہ ہے۔
اس بات کی تصدیق انوار الق کاکڑ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کی اور سچ پرستوں نے شکر ادا کیا ۔
اس بات پر بھی شکر ہے کہ جن عناصر نے ماؤں کے جگر کے ٹکڑوں کو لاپتہ کیا گیا ان کی نعشیں حملہ آوروں کے بھیس میں نہ ملیں ۔
اس وقت ملک میں لاپتہ افراد کی کھوج لگاؤ کا شور ایک مرتبہ پھر بلند ہو رہا ہے ۔
اس بات کو ہوا تب ملی جب ڈی جی ائی ایس پی ار اصف غفور نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے پی ٹی ایم کی سرگرمیوں، ان کی فنڈنگ اور ان کی جانب سے مسنگ پرسن کے نعروں سے متعلق چند سوالات کیے ۔
تاثر یہ ملا کہ شاید لاپتہ افراد کے لیے آواز ایک مرتبہ پھر زور پکڑ چکی ہے اور گراں گزر رہی ہے ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی کہ جب ہزارہ برادری پر حملہ ہوا تو ان کے لواحقین کی جانب سے ایک ہفتے سے زائد عرصے کا دھرنا دیا گیا جس میں چند متنازع نعرے بھی لگوائے گئے ۔
چونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی تو اس عمل کو ایکشن کا ری ایکشن بھی کہا جا سکتا ہے۔
ان تمام واقعات میں ہدف صرف اور صرف بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد اور بعض علاقوں میں صرف پشتون ہی بنے ۔
ماضی میں کسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے کچھ جھوٹے واقعات کو حقیقت بنانا گیا اور اس کی بنیاد پر رائے عامہ قائم کر کے اس کے خلاف اپریشن شروع کر دیا جاتا رہا ۔
کیا اس مرتبہ یہ اقساط کہیں اس صوبے کے عوام کو بھی تو نہیں دیکھنی پڑیں گی؟ جیسے ماضی میں سوات، جنوبی و شمالی وزیرستان میں دیکھی جا چکی ہیں جس سے فائدہ شاید معاشی راہداری کو تو ہو سکتا ہے لیکن ملک کا معاشرتی نقصان کتنا ہو گا اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا ۔
اب تو قوم یہ سوال بھی کرنے سے ڈرتی ہے کہ
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے نور کو گلنار کرے