کالم

جانتے ہو میں کون ہوں ؟

نومبر 24, 2019 3 min

جانتے ہو میں کون ہوں ؟

Reading Time: 3 minutes

یقینا یہ جملہ قارئین نے بار ہا سن رکھا ہوگا۔ ”جانتے نہیں، میں کون ہوں؟“ اور آئے روز اس جملہ کا استعمال کرتے افراد کو بھی دیکھتے ہوں گے؟ بدمعاشوں سے وزراء تک اور محکموں کے سربراہوں سے لے کر سپاہی تک سب ہی اس جملے کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں ؟ آپ نے یقینا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اس جملہ کا اثر کیا ہوتا ہے۔ لمبی لائن میں وہ صاحب سب سے آگے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنا کام نکلوا لیتے ہیں اور عام لوگ کھڑے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

کوئی بڑے عہدے پر فائز اگر جرم کرے تو تھانہ والے پہلے تو اس کے قریب ہی نہیں بھٹکے گیں اگر کسی نے عدالتی حکم پر پکڑنے کی کوشش کی بھی تو اس کو ہتھکڑی نہیں لگائیں گے کیوں کہ یہ پولیس والے خود ہی جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں ؟ رہی بات عوام کی تو بنا جرم کے ہی گھسیٹ گھسیٹ کر لے جائیں گے، اگر کوئی عوام میں سے پولیس والے یہی پوچھ لے کہ ہمارا قصور کیا ہے تو اس کو کہتے ہیں چل تھانے چل تجھے بتاتے ہیں۔ دو چار مقدمات درج کرتے ہیں تیرے خلاف ۔ خیر یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ہر روز بھگت رہے ہیں۔


ایک دور تھا صحافی حضرات بھی تڑی لگا کر کہتے تھے کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں ؟ اور کام نکلوا لیتے تھے ۔ پھر سماجی کارکن آ گئے انھوں نے ہر جگہ پر مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا شروع کر دی اور اتنے مشہور ہو گئے کہ ان کے منہ پر بھی یہی جملہ چڑھ گیا اور پولیس والے ان کو بھی ہاتھ ڈالنے سے کترانے لگے۔


ہمارے قومی محکموں (جن کو کچھ لوگ ادارے بھی کہتے ہیں) کی تو بات ہی نہ کریں صاحب ! آپ ان سے منسلک اہلکاروں کو دور سے دیکھ کر ہی سائید پکڑ لیں ورنہ یہ اپنے بوٹوں کی نوک پر سویلین کو رکھتے ہیں۔ معذرت نوک پر نہیں تلووں کے نیچے کچلے چلے جاتے ہیں، کوئی قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ؟

ایک صاحب جب سڑک پر نکلتے ہیں تو تمام شہریوں کو اگلے 10 چوکوں اور اشاروں پر روک دیا جاتا ہے، وائرلیس والے سادہ کپڑوں اور ساتھ وردی میں ملبوس بوٹوں والے کسی بڑے کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے عوام کو سرعام یرغمال بنائے رکھے ہوتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا اگر کوئی غلطی سے بولا تو سمجھو وطن عزیز کے محافظ کی تذلیل کی گئی جو کہ برداشت نہیں کی جاتی۔


اللہ بھلے کرے ہمارے سیاستدانوں کا، انتہائی نفیس ، سادہ اور درویشن صفت انسان ہوتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ اپنے حلقے میں کام بھی کروانے ہیں اور کام بھی نکلوانے ہیں تو صرف فون کال یا واٹس اپ کردیتے ہیں تاکہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو اور ”تم جانتے ہو میں کون ہوں“ کا پیغام بھی پہنچ جائے جس کے بعد ہر فائل کو ٹائر لگ جاتے ہیں اور وہ بھاگتی ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے ٹیبل پر صاحب کے دستخط کے لیے پہنچ جاتی ہے۔


اور اب تو ہمارے نئے محسن پیدا ہو گئے ہیں، ہمارے ملک کے ایکٹر! اللہ معاف کرے اب تو یہ بھی کہنے لگ گئے ہیں تم جانتے ہو میں کون ہوں! مطلب واقعی آپ ان شخصیات کو نہیں جانتے اگر نہیں تو کیوں نہیں جانتے، یہ آپ کا قصور ہے۔ آپ نے ان کو عزت دینی ہے جو آرڈر کریں وہ جلدی تیارکروانا ہے اور کچھ عرصے بعد تو ان کو نوالے بنا کر کھلانا بھی آپ کی ذمہ داری ہوگا۔

یہ جن اداروں اور شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ اور وہ یہ کہ سب ہی ہماری محنت کی کمائی سے دیے گئے ٹیکس پر پلتے ہیں اور پھر ہمیں ہی ۔۔۔۔۔

چلیں رہنے دیں کچھ نہیں کہتے۔ مطلب کیا واقعی ہی رہنے دیا جائے؟ جب عام انسانوں سے عزت ملتی ہے تو کچھ لوگوں کو فرعون کے جراثیم لگ جاتے ہیں، یہ عوام کو حقیقر سمجھتے ہیں اور اپنی ریاعا تصور کرتے ہیں۔

بھولے بھالے ہم وطنوں کہنا یہ تھا کہ جب آپ سب کو یہ سب قبول ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کو غلط کہنے والے یا اس کے خلاف آواز اٹھانے والے چلنے دو جو چل رہا ہے۔۔ #تمجانتےہومیں کون_ ہوں؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے