کیا نئے صوبے بن رہے ہیں؟
Reading Time: 3 minutesتحریر: عبدالجبار ناصر
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف آئین کے7 آرٹیکلز میں ترامیم کے تین بلوں پر عوامی سماعت کے ذریعے عوامی رائے معلوم کرنے میں مصروف ہے اور اس کا آغاز سندھ سے 2 دسمبر 2019ء کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں عوامی سماعت کے ذریعے کیا گیاہے۔ تین دسمبر ارکان سندھ اسمبلی، 4 اور 5 دسمبر کو بلوچستان میں عوامی سماعت اور ارکان بلوچستان اسمبلی سے ان بلوں پر رائے لی جائے گی۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر محمد جاوید عباسی کے مطابق اس کے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسی طرح کے سیشن ہوں گے۔ غالباً ملکی تاریخ میں پہلی بار مقننہ کے ارکان یا کسی کمیٹی نے اس طرح کی کوشش کی ہے اور تاحال نتیجہ مثبت آیا ہے۔
اب بلوں میں سب اہم ترمیمی بل موجودہ صوبہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبے ’’بھاولپور جنوبی‘‘ کے قیام کا ہے، جس کے لئے آئین کے کئی آرٹیکلز میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ جن میں آرٹیکل 1، آرٹیکل 51، آرٹیکل 59، آرٹیکل 106، آرٹیکل 175،آرٹیکل 198 اور آرٹیکل 218 میں شامل ہیں ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس بل کی منظور سے پہلے ایک اہم مرحلہ آئین کے آرٹیکل 239(4) کے مطابق پنجاب اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظورکرنا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اپنے طور پر ایک اچھی کوشش کر رہی ہے مگر نئے صوبے کا معاملہ انتہائی حساس ہے اس لیے اس پر انتہائی سنجیدگی اور غور فکر سے کام کرنا ہوگا۔ ’’بھاولپور جنوبی،سرائیکی صوبے ‘‘دروازہ کھل گیا تو پھر ہزارہ اور دیگر کئی صوبوں کے مطالبے میں نہ صرف شدت پیدا ہوگی بلکہ تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف عوامی رائے جاننے کے لئے کوشاں ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کے 10 سینیٹرز کی جانب سے جمع کئے گئے بل میں مجوزہ صوبہ پنجاب اور مجوزہ صوبہ ’’بھاولپور جنوبی‘‘کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی مختص کی گئی ہیں ۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل 124 ،جن میں جنرل 101 اور خواتین کی مخصوص 23 نشستیں ہونگی اور ’’بھاولپور جنوبی پنجاب ‘‘میں کل 59 ،جن میں 47 جنرل اور 12 مخصوص نشستیں ہونگی ۔اسی طرح آئین کے آرٹیکل 106 میں پنجاب کے لئے صوبائی کی 248 نشستیں مختص کی گئی ہیں جن میں 199 جنرل ، 44 خواتین اور 5 اقلیت ہیں اور’’بھاولپور جنوبی پنجاب ‘‘ کے لئے 123 نشستیں تجویز ہیں جن میں 98 جنرل ، 22 خواتین کی مخصوص اور 3 اقلیت کی ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے 21 سینیٹرز نے ایک اور بل آئین کے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 میں ترامیم کے لئے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں کے اضافے کے حوالے سے جمع کیا ہے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اس پر بھی عوامی سماعت کے ذریعے عوامی رائے معلوم کر رہی ہے ۔ مجوزہ بل میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 342 سے بڑھاکر 353 کرنے کی تجویز ہے اوراس کی تریب یہ کہ پنجاب کے لئے 173، سندھ کے لئے 75، خیبر پختونخوا کے لئے 55، بلوچستان کے لئے 20 کی بجائے 37 تجویز ہے(یعنی 17 نشستوں کا اضافہ، جن میں 14 جنرل اور3 خواتین کی مخصوص نشستیں ) اور وفاقی کے لئے 3 نشستیں مختص ہیں ۔ اس بل میں آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے،جس کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نشستیں 65 (51جنرل ، 11 خواتین اور 3 اقلیتی )سے بڑھاکر 80 کرنا یعنی 64 جنرل ، 13 خواتین کی مخصوص اور 3 اقلیتی نشستیں ہیں۔تیسرا بل آئین کے آرٹیکل 11 کے تحت چائلڈ لیبر کی عمر کی حد 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کرنے کے حوالے سے ہے۔
عوامی سماعت کے دوران راقم نے آئین کے آرٹیکل 51(5) پر بحث کی اور قومی و صوبائی اسمبلی کی موجودہ حلقہ بندیوں کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ آئین کے آرٹیکل 51(5) کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندی صرف آبادی کی بنیاد پر ہے ۔یہ بات درست ہے کہ صرف آبادی کو معیار بنانے سے بڑے رقبہ والے اور پسماندہ صوبوں اور علاقوں کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے ۔ اس لئے شرکاء نے بھی ہمارے مطالبے کی کہ آئین کے آرٹیکل 51(5) میں ترمیم کرکے قومی و صوبائی اسمبلی کی نئی حلقہ بندی صرف آبادی کی بجائے کثیر الجہتی یعنی آبادی، رقبہ، پسماندگی اور ریونیو کی فراہمی کی بنیاد پر کی جائے تاکہ لوگوں کی محرومیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ کثیر الجہتی معیار اختیار کرنے سے شکایات کا ازالہ ہوگا۔
مجوزہ بلوں میں آرٹیکل 51(5)میں ترمیم کا ذکر نہ ہونے کے باوجود سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف چئیرمین محمد جاوید عباسی کا یہ اعتراف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51(5)میں ترمیم پر ہمیں غور کرنا ہوگا اور اس پر شکوہ درست ہے، ہم اپنی رپورٹ میں اس تجویز کو شامل کریں گے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ غالباً ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی قائمہ کمیٹی نے عوامی رائے جاننے کی کوشش کی ہے اور نتیجہ مثبت آیا ہے۔