کالم

زہریہ ٹاؤن

دسمبر 4, 2019 3 min

زہریہ ٹاؤن

Reading Time: 3 minutes

میں دل شکستہ ہوچکا تھا۔ مایوسی میرے رگ و پے میں سرایت کرکے کانوں سے دھویں کی شکل میں نکل رہی تھی جس سے میری عینک کے شیشے بار بار دھندلا رہے تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ اپنی عینک دیوار پر دے ماروں لیکن پھر خیال آتا تھا کہ یہ بھی ٹوٹ گئی تو کھمبوں سے ٹکراتے ٹکراتے کیسے گھر پہنچوں گا۔ جونہی میں کمرے سے باہر نکلنے لگا تو اشرف قصائی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ اسے تھپتھپایا ۔ اور سرد لہجے میں یاددھانی کراتے ہوئے بولا ۔ "چوہدری صاحب، دس ہزار ہوچکے ہیں۔ اگلے ہفتے تک ادا ہوجانے چاہییں”۔

میرا جی چاہا کہ جھنگ روڈ پر جاکے این ایل سی کے ٹرالے کے سامنے کود جاؤں۔ مجھے پتہ تھا کہ اگلے ہفتے تک، دس تو کیا، میں ایک ہزا ر کا بھی بندوبست نہیں کرسکتا۔ تنخواہ ملنے میں ابھی بیس دن باقی تھے اور کوئی مجھے ادھار دینے کی غلطی نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے اللہ دتّے کی وہ حالت یاد آگئی جو پچھلے مہینے اشرف قصائی کے بیٹوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اگرچہ وہ صرف پانچ سو کا ہی مقروض تھا۔ انہی سوچوں میں غلطاں میں جوئے کے اڈّے سے باہر نکلا ۔ ابھی دس قدم چلا ہوں گا کہ گلی کی نیم تاریکی سے ایک سایہ نمودار ہوا۔ یہ ملک نیاز تھے!۔

انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے تاریکی میں پارک کیے ہوئے 70 ماڈل ویسپے کے پاس لے آئے۔ کک مار کر اسے سٹارٹ کیا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بادل نخواستہ پچھلی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ ملک صاحب ، مہارت سے ویسپا ڈرائیو کرتے ہوئے منڈی کوارٹر کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ منڈی کوارٹر کے ایک خستہ حال مکان کے سامنے جا کر انہوں نے ویسپا روکا۔ مجھے اترنے کا اشارہ کیا اور ویسپے کو سٹینڈ پر لگا کر مخصوص انداز میں دروازے پر تین بار دستک دی۔ (پینی۔۔۔پینی۔۔۔ پینی۔۔۔)٭۔ دروازہ ایک درمیانی عمر کی پختہ کار عورت نے کھولا اور ہماری طرف دیکھ کر خوف صورت انداز میں مسکرائی۔ ملک صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے اندر گھس گئے۔ مکان نیم تاریک اور پراسرار سا تھا۔ ملک صاحب نے مجھے بیٹھک میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اندرونی کمرے میں گھس گئے۔ بیٹھک میں دو کرسیاں ، ایک میز جس کا ایک پایہ ٹوٹا ہوا تھا اور اس کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اینیٹیں بھی نہیں رکھی گئی تھیں، اور ایک جھلنگا سی چارپائی تھی جس پر ایک میلا سا گدّا بچھا ہوا تھا۔ دس منٹ کے بعد ملک صاحب تشریف لائے۔ ان کے چہرے پر "نور” معمول سے کچھ زیادہ تھا۔ انہوں نے چارپائی پر نیم دراز ہوتے ہوئے سگریٹ سلگایاتو چرس کی مسحورکن خوشبو پوری بیٹھک میں پھیل گئی ۔ دو کش لگا کر انہوں نے مجھے واری لگانے کی دعوت دی جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کرلی۔ سگریٹ ختم ہونے کے بعد، ملک صاحب نے کھنگورا مار کر گلا صاف کیا اور یوں مخاطب ہوئے۔

"دیکھ باؤ چوہدری!۔ تو حیران ہورہاہوگا کہ میں تجھے یہاں کیوں لے کر آیاہوں۔ بات یہ ہے جگر ، کہ مجھے تیرے حالات کا پتہ چلا ہے کہ تو کافی قلّت زر کا شکار ہے اور اشرف قصائی ، آئی ایم ایف بن کر تیرا خون چوسنے کا پروگرام بنا رہا ہے اور اپنے بیٹوں کو نیٹو کی طرح تیری طبیعت صاف کرنے پر لگانے والا ہے ۔دیکھ باؤ، میں تجھے بہت پسند کرتا ہوں۔ تو ایک حق کا پرچارک اور راست گو لکھنے والا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ سر بازار تیری پھینٹی لگے اور لوگوں کو پتہ چلے کہ تو جواء کھیلتا ہے اور اتنا برا کھیلتا ہے کہ ہمیشہ ہارجاتا ہے”۔ ملک صاحب دم لینے کو ایک لحظہ کے لیے رکے اور مجھے پہلو بدلتے دیکھ کر میسنے انداز میں زیر مونچھ مسکرائے اور دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا۔ "ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ رزق کا وعدہ تو رب نے کیا ہے لیکن جوئے، شراب اور عیاشی کا نہیں۔ لہذا یہ سب چیزیں چاہییں تو مجھ سے تعاون کر۔ تجھے جو چاہیے وہ ملے گا”۔ ملک صاحب نے بات ختم کرکے لوفرانہ انداز میں مجھے آنکھ ماری اور نیا سگریٹ سلگانے لگے۔

میں نے نروس انداز میں ملک صاحب کی طرف دیکھا۔ عینک اتار کر اس کے شیشوں پر پھونک ماری، قمیص کے دامن سے انہیں صاف کیا اور دوبارہ ناک پر ٹکا کر ملک صاحب سے استفسار کیا۔ "سو وٹ ایگزیکٹلی یو وانٹ می ٹو ڈُو، دین؟”۔ ملک صاحب نےایک طویل قہقہہ لگایا۔ میز پر پڑے گندے سے جگ سے منہ لگا کر پانی پیا اور مجھے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، ” ڈر مت باؤ، تجھے صرف میرے حق میں خبریں لگانی ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہو کہ میں کتنا بڑا سماجی کارکن ہوں اور غریب غرباء کا کتنا درد میرے اس متاثرہ جگر میں ہے۔ تجھے تو پتہ ہے کہ دنیا کتنی حاسد ہے۔ ایک سجن تو سو دشمن ۔ بس تو مجھے ایک دیالو، ان داتا اور لکھ لُٹ امیج دے، میں تیرے قرضے، خرچے، جوئے، سب اٹھالوں گا۔ تو ابھی ملک نیاز کو جانتا نہیں ہے۔ کسی اشرف قصائی جیسے کن ٹُٹّے کی جرات نہیں ہوگی کہ تیری ہوا وَل وی تَک جائے۔ آہو۔”

میں اٹھا، ملک صاحب کے گھٹنوں کو چھوا ۔ اور الٹے قدموں سے چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔

میری دنیا بدل چکی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭”بگ بینگ تھیوری” کے ڈاکٹر شیلڈن کوپر کی سوغات

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے