بیجنگ کی رات اور ہمارے دکھ
Reading Time: 2 minutesرات بیجنگ کے آسمان پر تقریباً پورا چاند تھا، بس ایک کونہ ٹوٹا ہوا تھا۔ تھا بھی بہت نزدیک، اتنا نزدیک کہ جی چاہتا تھا اسے چھو لیا جائے، لیکن چھوا نہیں، کیوں؟ کیوں کہ دسترس میں آگیا تو قیمت کم ہوجائے گی۔
رات کا ڈنر میرے پرانے سٹوڈنٹس نے ارینج کیا تھا جو یہاں فنانس میں پی ایچ ڈی کرنے آئے ہیں، ہم کیا باتیں کرتے موازنہ کرنے کے سوا؟موازنہ کرنا بری بات ہوتی ہے لیکن اپنی محرومیوں کی آگ کو ہوا دینا لذت انگیز عمل ہے، سو ہم نے لذت کشید کی۔
ایک افریقی جو اس گروپ میں شامل تھا مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ دنیا بھر کے قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ہم افریقی پسماندہ کیوں ہیں؟ میں نے پوچھا تمہیں کیا لگتا ہے؟ کہنے لگا کرپشن ہوگی اس کی وجہ۔ میں نے کہا کہ دنیا کے 26 ملک گھومنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہارا تجزیہ غلط ہے، پسماندگی کی وجہ تمہارا توہم پرست ہونا ہے کرپشن نہیں، کیونکہ کرپشن کا پیسہ تو تمہارے اپنے ہی معاشرے میں دوبارہ استعمال ہوتا ہے۔
افریقی کہنے لگا کہ ہاں توہم پرست تو ہم ہیں ہی۔ پھر میں نے پوچھا کہ اچھا تم نے کسی توہم پرست معاشرے کو ترقی کرتے دیکھا ہے؟کہنے لگا کہ دیکھیں قطر، سعودی عرب، کویت اور ایران وغیرہ بھی تو مذہبی ہیں۔ میں نے پوچھا تم فنانس پڑھتے ہو کیا ان ملکوں میں کوئی سٹاک مارکیٹ ہے؟ کیا تیل کی افادیت کم ہونے کے بعد وہاں ایسے ہی حالات رہیں گے؟ کیا تم کوئی پیش گوئی کرسکتے ہو کہ یہ ممالک دنیا کی معیشت کے چمکتے ستارے ہوں گے؟
کم بخت فوری سوال کر بیٹھا کہ اچھا پاکستان کتنا توہم پرست ہے؟میں نے کہا ہمارا وزیرآعظم نگ پہنتا ہے، تسبیح پھیرتا ہے، اس کے گھر جنوں کے لیے گوشت جاتا ہے، حلف لینے کے لیے شبھ گھڑی کا انتظار کرتا ہے، ہمارا سائنسدان کہتا ہے کہ ایٹمی دھماکے والی رات ایک دیگچی سے ہزاروں لوگوں نے کھانا کھایا، ہمارا مبلغ حوروں کا درزی بنا بیٹھا ہے۔
کہنے لگا اس کا مطلب ہے اس معاملے میں آپ ہم سے آگے ہیں۔
پس تحریر: بیجنگ کو کرسمس اور نیو لیونر سال کے نزدیک دیکھنا ایک نیا تجربہ تھا، منفی تین درجہ حرارت بھی ویک اینڈ پر لوگوں کے ولولے کم نہ کرسکا۔ انسانوں کا ایک سمندر معروف چوراہوں پر بنے ہوئے کرسمس ٹریز کے ساتھ تصویریں بنا رہا تھا۔ قہقہے مسکراہٹیں، دمکتے آسودہ چہرے جو غربت سے جنگ جیت رہے ہیں ہر طرف چہچہا رہے تھے۔
صرف بیس سال پہلے جب میں نے انہیں دیکھا تھا تو اس وقت یہ ایسے نہیں تھے، اپنے درد سنبھال رہے تھے، اپنے قرض اتار رہے تھے۔
انہیں ایک سمت میسر تھی اور یہ چلتے رہے اور ان کے دکھوں کی گٹھڑی کا وزن کم ہوتا گیا۔