اسلام نہیں، سیکولرزم کو خطرہ ہے
Reading Time: 3 minutesجب سوشل میڈیا پر لکھتا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بدترین قسم کے تعصب کا سامنا ہے تو فرینڈ لسٹ میں موجود انڈین مسلمان دوست اس پر ناراض ہوجاتے اور اس کی سختی سے تردید فرماتے۔ ان کی پرجوش تردید دیکھ مجھے یہی تاثر ملا ہے کہ گجرات کا قتل عام نرندر مودی کے خلاف ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ بابری مسجد کا گرایا جانا بھی محض افسانہ ہے۔ وہ بھی جھوٹ کا پلندا ہے جسے چار سال قبل اپنی وال پر میں نے یوں بیان کیا تھا:
"مسلمان بھارت کی کل آبادی کا 10.5 فیصد ہیں جبکہ بھارت کی قومی اسمبلی یعنی لوک سبھا میں مسلمان ارکان صرف 22 ہیں جو تاریخ کی سب سے کم تعداد ہے اور یہ تعداد تناسب کے لحاظ سے 4.2 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی صرف 2 فیصد ہے لیکن پالیمنٹ میں ان کے 7 تو صرف وہ ارکان ہیں جو اقلیتوں کے لئے مخصوص سیٹوں پر آئے ہیں جبکہ براہ راست الیکشن لڑ کر آنے والے ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح انڈیا کی 10 لاکھ آرمی میں مسلمانوں کی تعداد صرف 29000 ہے جس کا تناسب صرف 3 فیصد بنتا ہے۔ اس میں بھی نصف تعداد جمو اینڈ کشمیر لائٹ انفینٹری کی ہے اگر متنازع علاقے کے ان سپاہیوں کو نکال دیا جائے تو خالص ہندوستانی مسلمان اپنی فوج میں صرف ڈیڑھ فیصد رہ جاتے ہیں اور اسی فوج میں افسران کا تناسب دیکھ لیا جائے تو بھارتی فوج میں مسلمان فوجی افسر صرف 2 فیصد ہیں۔ انڈین سول سروس میں مسلمان افسران کی تعداد بھی صرف 2 فیصد ہے جبکہ کلرکس میں یہ تعداد صرف ڈیڑھ فیصد رہ جاتی ہے۔ انڈین ایلیٹ سول سروس ایڈمنسٹریشن میں مسلمان افسران فقط 3 فیصد ہیں”
نہ صرف یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے بلکہ اسد الدین اویسی اور ان کے بھائی اکبر الدین اویسی بھارتی پارلیمان میں جو تقریریں کرتے ہیں وہ سب بھی لغو اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ چنانچہ اس پس منظر کے ہوتے میں بھارتی مسلمان کی فکر مندی سے تو آزاد ہوچکا ہوں۔ اور مجھے یہ "اطمینان” میسر ہے کہ نرندر مودی کے اقدامات میں "مسلم دشمنی” کا کوئی عنصر شامل نہیں۔ ایسے میں مودی کے اقدامات کو مسلم مفاد سے ہٹ کر دیکھنا لازم ہے۔ جب مسلم مفاد بیچ میں سے غائب ہوجائے تو واحد تجزیہ یہی بچ جاتا ہے کہ مودی جو کچھ کر رہا ہے اس کا وہ مینڈیٹ لے کر آیا ہے۔ اور اس مینڈیٹ میں پاکستان دشمنی تو شامل ہے لیکن اس میں اسلام دشمنی یا مسلم دشمنی جیسی کوئی چیز نہیں۔ ہاں "سیکولر دشمنی” اس کی بالکل عیاں ہے۔
سیکولرزم سے قبل مسلم نقطہ نظر سے نظام دو ہی طرح کے تھے۔ ایک اسلامی اور دوسرا غیر اسلامی نظام۔ سیکولرزم کے بعد سے ایک تیسرا نظام بھی موجود ہے اور یہ ہے "منافقانہ نظام” جس نظام کے پیروکار دعوی تو یہ رکھتے ہوں کہ ریاست کا مذہب سے اور مذہب کا ریاست کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن عملا وہ ریاستی اقدامات کے ذریعے حجاب، مسجد کے مینار، اذان سمیت کئی چیزوں پر ہاتھ ڈال چکے ہوں۔ اور جس کا یہ چلن بالکل عیاں ہو کہ اگر کوئی "غیر مسلم” توہین رسالت کردے تو پورا مغرب اسے بچانے کے لئے حرکت میں آجاتا ہو تو پھر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ سیکولرزم بھی اندر سے پورا پورا مذہبی ہے۔ اور مذہبی بھی اس حد تک پاکستان میں ہندو کو تھپڑ لگ جائے تو اس کا درد سیکولر بھارت تو محسوس کرتا ہے لیکن سیکولر مغرب نہیں۔ اور پاکستان میں کسی کرسچین کو خراش آجائے تو سیکولر بھارت کو کوئی بے چینی نہیں ہوتی جبکہ سیکولر مغرب اس درد کو "جسد واحد” کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ مسلمان کا آپ کچومر نکال دیجئے، اس کا درد سیکولر بھارت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی سیکولر مغرب۔ سانحہ ساہیوال والے بچے اس کی سب سے تازہ مثال ہیں۔ اگر یہی بچے خدا نخواستہ کرسچین ہوتے تو سیکولرزم کی مذہبی اچھل کود آپ بچشم سر دیکھتے۔
اگر نریندر مودی بھارت کو اس منافقانہ نظام سے نکال کر ایک ہندو ریاست بنانا چاہتا ہے تو دو قومی نظریے کے حامی کے طور پر میرے پاس اس کی حمایت کے سوا کوئی راہ نہیں بچتی۔ ہر دوسرے دن ہمارے دیسی لبرلز کہا کرتے "بھارت نے سیکولرزم کی وجہ سے ترقی کی ہے” مودی نے انہی دیسی لبرلز کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔
آج انہی دیسی لبرلز کو جواب دینا ہے کہ اگر بھارت سیکولرزم کی وجہ سے ترقی کر رہا تھا تو بھارت کے ہندو ووٹر نے اس کے خلاف ووٹ کیوں دیا ؟ بھارت تیزی سے ایک "مذہبی ریاست” کی طرف پیش قدمی کیوں کر رہا ہے ؟ اب بھارت جس قدر تیزی سے ہندو ریاست بنے گا، اتنی ہی تیزی سے دو قومی نظریہ اپنی اصل منزل تک پہنچے گا۔ تب ہم دیسی لبرلز سے پوچھیں گے کہ اب بتائیے، قائد اعظم مسلمانوں کی ریاست مانگ رہے تھے یا اسلامی ریاست ؟ اور بات یہاں تھمنے کی نہیں۔ مغرب میں انگڑائی لیتا نیشنلزم بھی کچھ کہہ رہا ہے۔ ذرا کان لگا کر سنئے، کیا کہہ رہا ہے!