کالم

دستور پاکستان ، سنگین غداری اور فوج

دسمبر 18, 2019 2 min

دستور پاکستان ، سنگین غداری اور فوج

Reading Time: 2 minutes

پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں معاملے میں ایساکچھ نہیں ہوگا۔ گذشتہ ایک دہائی سے ملک میں جمہوری اقدار اور جمہوریت کو عوام کے اذہان میں راسخ کیا گیا، اس کی وجہ 1999 کی آئین شکنی اور پھر سنہ 2007 کی ایمرجنسی کا نفاذ تھا جوکہ ایک سابق آرمی چیف کی جانب سے کیا گیا ہے، چونکہ پاکستان کا آئین مقدم ہے اور جو کوئی بھی اس آئین کو پامال کرتا ہے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کو سزائے موت یا پھر عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔

دستور پاکستان کے مطابق سنگین غداری کیا ہے؟
کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرے یا التوا میں رکھے یا ایسا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کرے یا معطل یا التوا میں رکھے سنگین غداری کا مجرم ہوگا، دستور پاکستان میں سنگین غداری کی یہ تعریف کی گئی ہے۔

اسی آئین میں مسلح افواج کی کمان کی بات جب کی گئی ہے تو یہ لکھا گیا ہے کہ
1 وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوگا
2 قبل الزکر حکم عمومیت پر اثر انداز ہوئے بغیر مسلح افواج کی اعلی کمان صدر کے ہاتھ میں ہوگی۔

مسلح افواج کے ارکان کا حلف بھی دستور میں درج ہے:
میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا، جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کےمطابق اور اس کے تحت پاکستان کی فوج (بری یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کیساتھ انجام دوں گا۔


مشرف کے خلاف فیصلے کے بعد پاکستان کی فوج کی جانب سے خصوصی عدالت کے فیصلے پر سوال اٹھائے گئے اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا، کہا گیا کہ کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، یہ بھی کہا گیا کہ پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی ہے ملک کے دفاع کیلئے جنگیں لڑی ہیں ۔ پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔ پرویز مشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں۔

سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلے کو اگر دستور کے تحت دیکھا جائے تو ہر کسی پر یہ بات عیاں ہوگی کہ فیصلہ درست ہے۔ لیکن پاکستان میں مسئلہ ہی ایک ہے، یہاں فیصلہ مخالف میں آئے تو مجھے کیوں نکالا اور اگر جیل سے نکال کر ملک سے باہر جانے دیا جائے تو ہمیں ان عدالتوں پر اعتماد ہے۔

سابق صدر آصف زرداری بھی جیل میں تھے مگر عدالت نے ان کی بھی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کر لی ۔

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف کے حوالے سے عدالتی فیصلے میں قانونی تقاضے پورے نہ کرنے اور کیس لڑنے کا پورا حق نہیں دیا گیا اگر دیا جاتا تو مشرف کیخلاف یہ فیصلہ نہ آتا۔

پاکستان میں عوام ہوں یا محکمے اپنے خلاف فیصلہ کسی صورت قبول نہیں کرتے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے