کالم

اضطراب کی شاعری

دسمبر 19, 2019 2 min

اضطراب کی شاعری

Reading Time: 2 minutes

میں نثر نگاروں سے نہیں ڈرتا۔ کیونکہ اس میدان میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا آتا ہے۔ شاعروں سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ یہ ظالم ایک ہی مصرعے میں بندہ قتل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور میں شاعر ہوں نہیں کہ جواب دے سکوں۔ سو شعر و شاعری پر رائے دینے سے گریز کرتا ہوں۔ پر آج رہ نہ سکا۔ پیش خدمت ہے "اضطراب” پر کہے گئے کچھ اشعار کی تشریح۔

محبت ایک طرف سے مزا نہیں دیتی
کچھ اضطراب تجھے ہو کچھ اضطراب مجھے
(جلیل مانک پوری)

شاعر کہتا ہے کہ اقامہ کیس کے نتیجے میں جو ذلت ہوئی اس سے صرف وٹس ایپ میسجز ریسیو کرنے والوں میں اضطراب پیدا ہوا تھا، "انصاف” کا تقاضا ہے کہ وٹس ایپ بھیجنے والے بھی اضطراب میں شریک ہوں۔

دیکھے بغیر حال یہ ہے اضطراب کا
کیا جانے کیا ہو پردہ جو اٹھے نقاب کا
(صفی لکھنوی)

شاعر اس شعر میں تفصیلی فیصلے کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ابھی پردے میں ہے۔ اور یہ اشارہ کرکے وہ مضطرب لوگوں کا حال اور پتلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روئے بغیر چارہ نہ رونے کی تاب ہے
کیا چیز اف یہ کیفیت اضطراب ہے
(اختر انصاری)

شاعر بڑا خبیث ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ صرف اضطراب نہیں ہے بلکہ”ادھر” بڑا رونا دھونا چل رہا ہے۔

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
(فانی بدایونی)

شاعر اس شعر میں پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ وردی والوں کا اضطراب بلڈی سویلین کے لئے عشق و شباب کا لمحہ ہے۔

میرے سکون قلب کو لے کر چلے گئے
اور اضطراب درد جگر دے گئے مجھے
(علیم اختر)

شاعر کہہ رہا ہے، ایسا فیصلہ سنوا کر ریٹائرڈ ہونا کہاں کا انصاف ہے؟ ریٹائرمنٹ سے پہلے میرا سکون قلب واپس کرو۔

میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا
کبھی غبار کی صورت کبھی دھواں بن کر
(افضل الہ آبادی)

شاعر اس شعر میں مضطرب لوگوں کو منا بھائی ایم بی بی ایس والے ڈاکٹر استہانا کی لافٹر تھراپی کا فائدہ اٹھانے کا مشورہ دے رہا ہے کہ ناچو اور زور زور سے قہقہے لگاؤ۔

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
(مومن خاں مومن)

شاعر کہتا ہے اضطراب میں ردعمل نہیں دینا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو اپیل کے مرحلے پر نرمی کی گنجائش ختم ہوجائے اور آپ کو لاش اٹھانی پڑ جائے۔

آخر تڑپ تڑپ کے یہ خاموش ہو گیا
دل کو سکون مل ہی گیا اضطراب میں
(ساحر ہوشیار پوری)

شاعر فیصلہ سنانے والوں کو اطمینان دلا رہا ہے کہ یہ خود ہی خاموش ہوجائیں گے، آپ کو اضطراب سے ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔

قرب نس نس میں آگ بھرتا ہے
وصل سے اضطراب بڑھتا ہے
(عبد العزیز خالد)

شاعر کہہ رہا ہے کہ اداروں کا گٹھ جوڑ اگر "وصل” کی شکل اختیار کرلے تو پھر اضطراب اس کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔

چلنا اپنا قریب ہے شاید
جاں کرے ہے اب اضطراب بہت
(میر تقی میر)

شاعر کہتا ہے تیری ڈاکٹرائن فیل ہوگئی، لھذا نوشتہ دیوار پڑھ اور چھ ماہ بعد اپنا گھر جانا طے سمجھ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے