اقوام متحدہ سے کوالالمپور تک پاکستان کی ناکامی
Reading Time: 3 minutesمحمد اشفاق ۔ تجزیہ کار
مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کرنے کی ہماری تمام تر کوششیں پے در پے ناکام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کشمیر کے معاملے پر طلب کیا گیا اجلاس فرانس کی مخالفت کے باعث منسوخ ہو گیا ہے- پاکستانی ذرائع ابلاغ اسے ملتوی بتا رہے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کی ترجمان کا صرف اتنا کہنا تھا کہ ان کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ انٹرنیشنل پیس کیپنگ ڈے پر بھارت اور پاکستان میں یو این ملٹری آبزرور گروپ سلامتی کونسل کو لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بریفنگ دے گا، یہ حسرت بھی ناتمام رہی۔
کشمیر کے معاملے کو انٹرنیشنل میڈیا کے فوکس پر لانے کا ایک بہترین ذریعہ کوالالمپور سمٹ تھا، 52 ممالک کے وفود کی شرکت کے ساتھ یہ تقریباً او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے لیول کا اجتماع ہے، جسے دنیا بھر میں او آئی سی سے کہیں زیادہ اہمیت مل رہی ہے- جن تین ممالک نے مسئلہ کشمیر پر کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، ان تینوں کے سربراہان ہمارے وزیراعظم کے دائیں بائیں ہوتے تو کشمیر پر ہمارے موقف کو کس قدر سنوائی اور پذیرائی مل سکتی تھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- یہ موقع بھی دباؤ کے آگے سرنگوں ہو کر ضائع کر دیا گیا۔ مودی اور بھارت کو ہم نے ایک اور واک اوور دے دیا۔
اور یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت کو واک اوور ملا ہو۔ او آئی سی کا اجلاس ہم اس لیے نہیں بلا پائے کہ انہی خلیجی حکمرانوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ اسے امہ کا مسئلہ بنانے سے گریز کیا جائے اور ساتھ ہی مودی کو اپنے ملک میں بلا کر اربوں ڈالر کے معاہدے کر لئے۔
یو این ایچ آر سی کے اجلاس میں جب کشمیر پر قرارداد پیش ہوئی تو ہم تمام تر دعوؤں کے برعکس مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے، بلکہ پراسرار طور پر ہمارا اپنا نمائندہ اجلاس سے غیر حاضر ہوگیا۔ اس ناکامی کے نتیجے میں کشمیر کا معاملہ جنرل اسمبلی میں زیربحث آنے کا امکان بھی ختم ہوگیا۔ ہمارے ہاتھ فقط اپنے ہی وزیراعظم کی تقریر پر اپنے ہی وفد کے ارکان کی بجائی گئی تالیاں آئیں۔
کوالالمپور سمٹ میں کشمیر کا ذکر لازمی آئے گا اور ہمارے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا کہ ہماری وہاں نمائندگی نہیں ہوگی۔ جس نیم دلی بلکہ مردہ دلی کا مظاہرہ یہ حکومت کشمیر کے معاملے پر کر رہی ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے-
کوئی بھی ایسی حکومت جسے عوامی حمایت درکار ہو، وہ کشمیر جیسے معاملے پر اتنی ڈھیلی ڈھالی، بے جان مہم نہیں چلا سکتی۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ حکومت عوامی تائید کی محتاج نہیں ہے اور جس ادارے کی حمایت کی محتاج ہے، وہ اس سے بس ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ چاہتا ہے-
آپ کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے موقع پر نہایت دکھی دل سے، بہت دردمندی کے ساتھ بہت سے خواتین و حضرات ہمیں یاد دلاتے تھے کہ یہ دھرنا کشمیر کے معاملے سے توجہ ہٹانے کا باعث بن رہا ہے- یہ خواتین و حضرات اگر اب کسی کو ملیں تو انہیں قریبی پاگل خانے میں جمع کروا دیں۔
آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ کشمیر پہ سفارتی و سیاسی کوششوں کو تیز کرنے کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ تین سویلینز کے ساتھ ڈی جی ایم او اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی جس کے ممبرز تھے۔ اس کمیٹی کے آج تک کتنے اجلاس ہوئے؟ ان اجلاسوں میں کیا فیصلے ہوئے؟ ان فیصلوں کے کیا نتائج نکلے؟ مستقبل کیلئے اس کمیٹی نے کیا لائحہ عمل ترتیب دے رکھا؟ میری طرح آپ میں سے کوئی بھی ان سوالوں کے جواب نہیں جانتا اور شاید کبھی نہ جان پائے۔
لیکن کبھی نہ کبھی ہمیں اس سوال کا جواب ضرور مل جائے گا کہ جہاں بھی کشمیر کے معاملے پر بھارت پہ دباؤ پڑنے کا امکان پیدا ہوتا تھا، وہاں سے ہم غائب کیوں ہو جاتے تھے؟