کالم

باعزت بری

جنوری 5, 2020 4 min

باعزت بری

Reading Time: 4 minutes

ہمارے قومی اداروں اور محکموں میں سے شاید ہی کوئی ادارہ یا محکمہ ہو جس سے شکایات کے انبار نہ ہوں مگر عدلیہ اور فوج کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے فیصلے و اقدامات قومی سطح کے اثرات رکھتے ہیں۔ پولیس، کسٹم، ریلوے، ہوابازی اور صحت کے محکموں سمیت آپ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کا جائزہ لیں تو ان سے مقامی سطح کی شکایات بے تحاشا ہوسکتی ہیں مگر یہ اپنے کسی ایک فیصلے کے ذریعے پوری قوم کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جبکہ ان کے برخلاف عدلیہ اور فوج قومی سطح کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں فوج پر تو بہت بات ہوتی ہے، اور پورا سال ہوتی ہے۔ صرف بات ہی نہیں بلکہ سول سپرمیسی کے لئے اٹھنے والی تحاریک اور سرگرمیاں بھی ہم نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ان کا فخریہ حصہ بھی بنتے ہیں لیکن عدلیہ سے درپیش شکایات کے حوالے سے کوئی منظم تحریک تو کیا کسی باقاعدہ اور مستقل گفتگو کا بھی کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قومی ادارے کے حوالے سے کوئی منظم اصلاحی قومی عزم ہی وجود نہیں رکھتا۔ ہم حالیہ برسوں میں یہ تماشے بچشم خود دیکھ چکے کہ ہماری اعلی عدلیہ نے ایسے لوگوں کو بھی ’باعزت بری‘ کیا جنہیں پھانسی چڑھے مدت گزر چکی تھی۔ اور ہم نے اعلی عدلیہ کو ہی ایسے افراد کو بھی باعزت بری کرتے دیکھا جو بیس بیس سال سے جیل میں تھے۔ کیا یہ دل دہلا دینے والا المیہ نہیں کہ جن لوگوں کا کیس سپریم کورٹ میں انصاف کا منتظر ہو کہ سپریم کورٹ ان کی سزائے موت ختم کرکے انہیں جینے کا حق دلوائے گی۔ انہیں جینے کا حق پھانسی کے بعد ملے ؟ اور کیا یہ ظلم کی انتہاء نہیں کہ کسی کو "باعزت بری” کرنے میں بیس سال لگ جائیں ؟

کیا ہم نے اس عجیب و غریب انصاف پر کبھی قومی شور بلند ہوتے دیکھا ؟ کیا کسی ایک بھی سیاسی جماعت یا سماجی تنظیم نے اس ظلم پر ایک بھی لفظ کہا ؟ کیا نیوز چینلز نے اسے "سنگین مسئلہ” قرار دے کر اس پر سوالات اٹھائے اور یہ پوچھا کہ اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور اس ذمہ دار کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہئے ؟ اور جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ یہ واقعات مزید نہ ہوں گے ؟ کیا کسی عدالت نے یہ حکم دیا کہ فوری طور پر ملک کی تمام جیلوں کا سروے کیا جائے اور پتہ لگایا جائے کہ اسی طرح کے مزید بے گناہ سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سزا تو نہیں بھگت رہے ؟ جو جیلوں میں پڑے اپنے کیس کی باری کے دس دس اور بیس بیس سال سے منتظر ہیں، ان کی تو کوئی شنوائی نہیں اور "انصاف” کا علم بلند کرنے کے لئے سوموٹو ایکشن جب بھی لیا گیا کسی ایسے مسئلے پر لیا گیا جس کے کوئی نہ کوئی سیاسی یا کاروباری اثرات ضرور تھے۔ یہی حال "روزانہ کی بنیاد پر سماعت” والے کیسز کا بھی ہے۔ یہ حد نہیں تو کیا ہے کہ سیاسی و کاروباری اثرات والے کیسز تو روزانہ کی سماعت کا درجہ پا لیتے ہیں لیکن جیلوں میں سڑنے والے عام لوگوں کے کیسز کے نصیب میں اس طرح کی کوئی "سعادت” نہیں آتی۔

سوال یہ ہے کہ سیاسی کیسز اتنی اہمیت کیوں حاصل کر لیتے ہیں ؟ اور جیل میں سڑتا عام آدمی مستقل نظر انداز کیوں رہتا ہے ؟ بظاہر اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نظر نہیں آتی کہ اعلی عدلیہ میں ججز کے تقرر کا نظام ایک بڑے سقم کا شکار ہے۔ رول یہ کہتا ہے کہ اعلی عدلیہ میں 60 فیصد ججز بار سے جبکہ 40 فیصد لوئیر جوڈیشری سے آئیں گے۔ لیکن ہو کچھ اور ہی رہا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے 17 ججز ہیں۔ یہ سترہ کے سترہ بار سے آئے ہیں۔ ان میں ایک بھی جج ایسا نہیں جو لوئیرجوڈیشری سے چلتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 7 ججز ہیں۔ یہ سات کے سات ججز بھی بار سے آئے ہیں۔ اس ہائی کورٹ میں ایک بھی جج ایسا نہیں جو لوئیرجوڈیشری سے لیا گیا ہو۔ لاہور ہائی کورٹ میں 60 جج ہیں۔ ان میں سے 45 بار سے لئے گئے ہیں جبکہ 15 لوئیرجوڈیشری سے آئے ہیں۔ یوں اس ہائی کورٹ کے 91 فیصد ججز بار سے ہیں جبکہ رول کے مطابق یہ 60 فیصد ہونے چاہئے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز ہیں۔ ان میں سے 38 بار سے آئے ہیں جبکہ صرف دو لوئیر جوڈیشری سے لئے گئے ہیں۔ یہاں بار کا تناسب 89 فیصد ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں 20 ججز ہیں۔ ان میں سے 18 بار سے ہیں جبکہ 2 لوئیر جوڈیشری سے لئے گئے ہیں۔ اس ہائی کورٹ میں بار کا تناسب 94 فیصد ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں 15 ججز ہیں۔ ان میں سے بار سے لئے گئے ججز 10 جبکہ لوئیر جوڈیشری سے آنے والے ججز کی تعداد 5 ہے۔ یہاں بار کا تناسب 80 فیصد ہے۔

یہاں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ لوئیر جوڈیشری کا جج تو یہ امتیازی وصف رکھتا ہے کہ وہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے جج بنتا ہے جبکہ بار سے اعلی عدلیہ میں پہنچنے والا جج "نامزدگی” کی بنیاد پر بطور جج اپنے کیریئر کا آغاز کرتا ہے۔ تو ترجیح کسے ملنی چاہئے ؟ نامزد کو یا مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہونے والے لوئیر جوڈیشری کے تجربہ کار جج کو ؟ مگر یہاں ہو یہ رہا ہے کہ اس کا کوٹہ بار سے کم بھی رکھا گیا اور اس کم کوٹے پر بھی عمل نہیں ہورہا۔ آخر بار کے پاس ایسے کونسے سرخاب کے پر ہیں جن کی مدد سے اس کا "نامزد” لوئیر جوڈیشری کے امتحانی شاہین سے بھی زیادہ بلند پرواز کر لیتا ہے ؟ بار کے پاس دو سرخابی پر ہیں۔ اس کا ایک پر سیاسی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بار کا پورا سسٹم سیاسی وابستگیوں پر استوار ہے۔ جبکہ بار کا دوسرا سرخابی پر وہ بڑی لاء فرمز ہیں جن کے نامی گرامی وکلاء پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری گروپس کے "قانونی مشیر” کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ انہی دو پروں کا کمال ہے کہ اعلی عدلیہ میں سوموٹو اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت سیاسی یا کاروباری کیسز کے حصے میں آتی ہے۔ اور عام آدمی اپنے حصے کے انصاف کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیس بیس سال آنسو بہاتا رہ جاتا ہے مگر اس کے نصیب میں "باعزت بری” کا پروانا تب آتا ہے جب وہ یا تو پھانسی چڑھ چکا ہوتا ہے، یا ساری جوانی محض عدلیہ کی غفلت کے سبب جیل میں گزار چکا ہوتا ہے۔ کیا ایسے عدالتی نظام کو باعزت بری کیا جاسکتا ہے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے