کالم

ایرانی جرنیل کی موت پر خوشی یا غم؟

جنوری 5, 2020 3 min

ایرانی جرنیل کی موت پر خوشی یا غم؟

Reading Time: 3 minutes

عقیل الرحمان ۔ صحافی / تجزیہ کار

2016 میں جب امریکا نے ترک فوج کے ذریعے اوردگان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو پہلے پہل بغاوت کامیاب ہونے کی خبر سے اہل سنت حلقوں میں غم کے بادل چھا گئے۔ اچھی طرح یاد ہے اس وقت شام کے مسئلے پر ایران، ترک کشیدگی چل رہی تھی۔ ہمارے ایک فیس بک فرینڈ شیعہ علامہ صاحب نے امریکا کی مذمت کے بجائے یہ طنزیہ جملہ کسا "اہل سنت بھائیو ! ابھی اپنے انسو سنبھال رکھو“ اگرچہ وہ بغاوت ناکام ہوگئی اور ہمارے انسو بچے رہے تاہم اس جملے کی کسک اج بھی اسی طرح محسوس ہوتی ہے۔

آج جب امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی موت پر اہل تشیع حلقوں میں ماتم بپا ہے تو اہل سنت کی کمانوں سے بھی طنز کے تیر نکل رہے ہیں ۔ البتہ اس حملے پر اہل سنت کی مسرت کی بڑی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ جنرل سلیمانی نے شام کے نہتے اہل سنت پہ مظالم ڈھانے میں بشارالاسد کا کھل کر ساتھ دیا تھا۔
نظریاتی اختلاف سے ہٹ کر دیکھا جائے تو قاسم سلیمانی خطے میں امریکا مخالف مزاحمت کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ اس نے بڑی منصوبہ بندی سے ایران، عراق،شام ، لبنان اور افغانستان کی شیعہ ابادی کو نظریہ ولایت فقیہہ کی بنیاد پہ ایک آہنی زنجیر میں جکڑ رکھا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی، حسن بن صباح کے "حشاشین ” کی طرح شدت پسند شیعہ نوجوانوں کو ایران دشمنوں کیخلاف استعمال کرتا رہا۔ لبنان کی حزب اللہ ہو یا شام کی کتایب حزب اللہ، عراق کی مھدی ملیشیا اور الحشدالشعبی ہو یا ایران کی القدس بریگیڈ اور افغانستان کی الفاطمیون بریگیڈ ان سب کا روح رواں اور ماسٹر مائنڈ یہی طلسماتی شخصیت کا مالک جنرل قاسم سلیمانی ہی تھا۔


قاسم سلیمانی نے خطے میں ایرانی اثر و نفوز بڑھانے اور اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کیلیے لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کی پشت پناہی کی ۔ مشرق وسطی کے موجودہ منظرنامے کو دیکھتے ہوے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خطے میں اسراییل کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ کوی عرب ریاست نہیں بلکہ ایران ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ فی الوقت موضوع نہیں ۔ چونکہ اسرائیل وہ طوطا ہے جس میں امریکا کی جان ہے تو اس کو محفوظ بنانے کے لیے ایران کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ البتہ طاقت جہاں انسان کی ضرورت ہے وہاں اس کی کمزوری بھی ہے ۔ اسی طاقت نے جنرل سلیمانی کو سنی ممالک میں مداخلت پر اکسایا۔ اس نے وہاں کی شیعہ ابادی کو بھڑکایا ، یمن ، بحرین جیسے پرامن ملکوں میں فرقہ وارانہ بغاوتیں کرواییں ، شام کی سنی اکثریتی ابادی پر زندگی تنگ کردی اور سعودی اییل تنصیبات پر حملہ کروایا۔ یوں وہ شخص جو امریکا کے خلاف مزاحمت کا نشان تھا طاقت کے زعم میں اپنوں کے ہاں نفرت کی علامت بن گیا ۔

خطے کے عرب ممالک ایران کی بڑھتی طاقت سے اسی طرح خطرہ محسوس کرنے لگے جیسے اسرائیل کو تھا۔ اس کے نتیجے میں عربوں کو اپنی سلامتی کے لیے امریکا کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنا پڑا اور اپنی تابعداری کے ثبوت کے طور پر امریکا کے ناجایز بچے اسراییل کو بھی گود لینا پڑا۔

آجاگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو اس کے لیے کندھا اسراییل کے بجاے کسی مسلم ملک کا استعمال ہوگا اور پھر نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر شیعہ سنی ہی ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہوں گے ۔ ایرانی اور سعودی قیادت اپنے اپنے خول میں بند ہے ۔ ایران اپنے شیعی نظریات برامد کرنے میں جتا ہے تو سعودیہ مغربی کلچر درامد کرنے میں لگا ہے ۔ رہے سوا ارب مسلمان تو وہ ایسی بھیڑیں ہیں جنہیں چرواہوں نے بھیڑیوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ رکھا ہے ۔ یہ بھیڑیں بھی سیاہ وسفید میں تقسیم ہیں ۔ باری باری ذبح بھی ہورہی ہیں اور ایک دوسرے کی موت پہ اچھل کود بھی رہی ہیں ۔

ایرانی پالیسیوں سے شدید اختلاف کے باوجود میں اپنی طبیعت کو ماتم اور نوحوں کی فضا میں خوشی کے شادیانے بجانے پر ہرگز امادہ نہیں پاتا ۔ کسی نے کہا ہے

پژمردگی گل پہ جب ہنسنے لگی کلی
خزاں نے کہا کہ تو بھی نظر میں ہے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے