کالم

قاسم سلیمانی اور ایرانی رد عمل

جنوری 5, 2020 4 min

قاسم سلیمانی اور ایرانی رد عمل

Reading Time: 4 minutes

عبدالخالق ہمدرد

اس وقت عراق میں بظاہر امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اس کو تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور ایران نے اپنا رد عمل ظاہر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے لیکن ساری دنیا کو اس رد عمل کا انتظار ہے کہ وہ کیا ہوگا۔

رد عمل کی کہانی سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ قاسم سلیمانی کون تھے اور وہ عراق میں کیوں مارے گئے؟ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ’’امریکا کا بین الاقوامی دہشتگردی کا عمل اور (داعش، النصرہ اور القاعدہ کے خلاف لڑنے والی سب سے مؤثر قوت) جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بہت خطرناک اور بیوقوفانہ تناؤ ہے اور امریکا اس کے نتائج کا ذمہ دار ہے۔‘‘

قاسم سلیمانی نے 1998 میں پاسداران انقلاب کے القدس بریگیڈ کی کمان سنبھالی تھی۔ یہ بریگیڈ ساری دنیا میں ایران کے زیر اثر عسکری اور غیر عسکری تنظیموں کے امور کا نگران ہے۔ اس لحاط سے کہا جاتا ہے کہ سلیمانی حقیقی معنوں میں ایران کے وزیر خارجہ تھے اور خصوصاً مشرق اوسط کے بارے میں ساری پالیسیاں ان کے مشورے سے بنتی تھیں۔ انہوں نے پورے خطے میں ایران کے اثر رسوخ کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لبنان میں حزب اللہ کو مظبوط کیا۔ اس کے بعد عراق میں الحشد الشعبی کے جتھے منظم کئے اور داعش کے خلاف لڑائی کے نام پر ان کو میدان میں اتارا اور شمالی عراق کے کئی سنی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بعد میں ان جتھوں کو باقاعدہ عراقی عسکری اداروں کا حصہ بنایا گیا۔

قاسم سلیمانی کے جنازے میں شریک ایرانی شہری

حالیہ مہینوں میں عراق میں عراقی حکومت اور ایرانی اثر رسوخ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو کچلنے میں الحشد الشعبی نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح 2011 میں شام میں بشار کی حکومت کے خلاف عوامی جد وجہد شروع ہوئی تو قاسم سلیمانی شامی حکومت کی مدد کو پہنچ گئے اور ساتھ ہی عراق اور لبنان سے شیعہ جتھوں کے علاوہ افغانستان اور اور پاکستان سے بھی نوجوانوں کو بھرتی کر کر کے شام بھیجنا شروع کیا۔ اس طرح روس کی بمباری اور ایرانی اور ایران کے زیرفرمان جتھوں نے شام میں جو کچھ کیا وہ عالمی ذرائع ابلاغ میں آ چکا ہے۔ اس ساری کارروائی کے پیچھے قاسم سلیمانی کا دماغ کام کر رہا تھا۔ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ اگر ایران پیچھے ہٹ جائے تو بشار کی حکومت چند دن بھی کھڑی نہیں رہ سکتی۔

ایران میں مظاہرین امریکی پرچم جلا رہے ہیں۔

امریکا عراق اور شام میں سلیمانی اور ایران کے کردار سے کبھی لا علم نہیں تھا لیکن چونکہ داعش کے خلاف وہ خود بھی دیگر سنی ممالک کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہا تھا، اس لئے ایران کی مدد اس کے فائدے میں تھی۔ اب تو سلیمانی کی ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جن میں وہ افغانستان کے بارے میں امریکیوں کو معلومات دے رہے ہیں۔ آخر میں جب عراق میں امریکی سفارتخانے پر الحشد الشعبی نے حملہ کیا اور سفارتخانے کی دیواروں پر سلیمانی کے حق میں نعرے لگائے تو امریکا نے سلیمانی کا پتہ ہی صاف کر دیا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت عراق میں ایک نہایت کمزور حکومت قائم ہے جو ایران اور امریکی مفادات کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملاً جو لوگ حکومت میں ہیں، وہ اس خلا کی پیداوار ہیں جو صدام حسین کا تختہ الٹنے سے پیدا ہوا تھا۔ یہ لوگ امریکا کے حلیف بن کر سامنے آئے۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو صدام کے زمانے میں ایران میں پناہ گزین تھے۔ یہ ایرانی مفادات پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو مایوسی پیدا ہوئی ہے، اس کا شاخسانہ یہ ہے کہ نجف میں مظاہرین نے ایرانی قونصلیٹ کو نذر آتش کر دیا۔ بات بہت دور نکل گئی۔ اصل سوال کی جانب آتے ہیں کہ سلیمانی کے قتل پر ایران کا ممکنہ رد عمل کیا ہوگا؟ غیب کا علم اللہ کو ہے۔ انسان ظاہری چیزوں اور واقعات کی کڑیوں کو آپس میں ملا کر اس کے نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بعد کبھی اس کی سوچ درست اور کبھی غلط ہوتی ہے۔

جنرل سلیمانی پر مخالف مسلک کے افراد کے قتل کے الزامات لگائے جاتے رہے۔

میرے ناقص خیال میں ایران کا رد عمل درج ذیل ہو سکتا ہے:

ایران شام کے بعض علاقوں میں امریکی فوجیوں کا بہانہ بنا کر وہاں کی مقامی آبادی سے انتقام لے گا اور پھر اعلان کرے گا کہ فلاں جگہ امریکی اڈے کو نشانہ بنا کر بدلہ لے لیا۔ – عراق میں الحشد الشعبی کے ذریعے قتل وغارت کا بازار گرم کیا جائے گا اور اسے امریکی کارروائیوں کا بدلہ قرار دیا جائے گا کیونکہ امریکا نے چند دن پہلے عراقی حزب اللہ کے کچھ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

یمن میں حوثی باغیوں کو مزید اسلحہ پہنچایا جائے گا تاکہ وہ سعودی عرب کے خلاف مزید کارروائیاں کریں اور اسے امریکا کے حلیفوں سے بدلے کا نام دیا جائے گا۔

ممکن ہے آبنائے ہرمز میں کچھ تیل بردار جہازوں کو روکا جائے کیونکہ ایران ایسی کارروائیاں پہلے بھی کرتا رہا ہے۔ – بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایران، امریکا یا اسرائیل کے خلاف براہ راست کوئی عسکری کارروائی نہیں کرے گا کیونکہ شام میں اسرائیل کے ایرانی ٹھکانوں پر براہ راست کئی حملوں کے باوجود ایران نے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

امریکا کے ساتھ ایران کے تعلقات ضرور کشیدہ ہیں، امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود اب تک ایران دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھا کیونکہ اسے بھی معلوم ہے کہ اگر وہ امریکا کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو امریکا بھی اسے نقصان پہنچانے سے پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ ایران امریکا کے عسکری حصار میں ہے۔ – ایران ساری دنیا میں ’’برگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل‘‘ کے پروپیگنڈے میں مزید تیزی لائے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے