کالم

مسلم ہیروز اور منفی پروپیگنڈہ

جنوری 14, 2020 6 min

مسلم ہیروز اور منفی پروپیگنڈہ

Reading Time: 6 minutes

عرفات فانی
اپنے نوجوانوں کی تاریخی غلط فہمیوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ ادھر ادھر کی باتوں کو سن کر بہت جلد مایوس اور مرعوب ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے سارے ہیروز انسانیت دشمن، علم دشمن اور متعصب تھے کیونکہ ان کا تاریخ کا مطالعہ انتہاٸی سطحی ہوتا ہے۔ اس گناہ میں نام نہاد غیرجانبدار مورخین کے ساتھ ہمارے نوجوان بھی برابر کے شریک ہیں جو کتاب اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

ایسے ہی کچھ تاریخی حقائق ملاحظہ کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر اوقات ہمارے نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم انسانیت کے قاتل ہیں۔ انھوں نے مظلوم انسانوں کا قتل عام کیا لیکن وہ انہیں اس پس منظر کے بارے نہیں بتاتے کہ طارق بن زیاد نے کیوں اندلس پر حملہ کیا تھا؟ مسلمانوں سے مفتوح قوموں نے ہمیشہ نفرت کی بجاٸے محبت کی اور جو خطے مسلمانوں کے قبضے میں نہیں تھے ان علاقوں کے لوگ یہ آرزو کرتے تھے کہ مسلمان یہاں پر بھی اپنی حکومت قاٸم کریں۔ سپین میں راڈرک کی حکومت تھی اور مراکش کے ساحل سبتہ پر کاٶنٹ جولین کی حکومت تھی۔ یہ دونوں عیساٸی تھے۔ راڈرک اپنی رعایا کے نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں سے اپنی ہوس پوری کرتا تھا۔ کاٶنٹ جولین کی ایک لڑکی کو بھی اس شرالدواب راڈرک نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ جب جولین کو اس واقعے کا پتہ چلا تو وہ ایک وفد لے کر موسی بن نصیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے التجا کی کہ وہ سپین کو راڈرک کے ظلم وستم سےبچاٸے۔

موسی بن نصیر نے درخواست قبول کی اور ولید بن عبدالملک سے اجازت مانگی کہ سپین پر چڑھاٸی کرے۔موسی بن نصیر نے اجازت طلب کرنے کے بعد طارق بن زیاد کی سربراہی میں اسپین کی جانب ایک لشکر عظیم روانہ کیا۔ طارق بن زیاد نے سپین فتح کی جس کے بعد آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے اس کی سرزمین پر حکومت کی اور علم وادب کے چراغ روشن کرکے اسپین کو علم کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ بنایا۔ لیکن پھر جب اس کے بعد دوبارہ عیساٸیوں نے سپین فتح کیا تو اپنے تعصب اور نفرت کا واضح ثبوت پیش کیا۔ وہ انتہاٸی متعصب اور تنگ نظر تھے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد فورا حکم جاری کیا کہ ساری مساجد کو کلیسا میں تبدیل کردیا جاٸے۔ یہاں تک کہ پورے سپین میں ایک مسجد بھی باقی نہیں رہی لیکن ان نام نہاد مغربی مورخین پر محض ماتم کیا جاسکتا ہے جنہوں نے لکھا کہ یہ عیساٸیوں کی انتقامی کارواٸی تھی کیونکہ اس سے پہلے مسلمانوں نے سارے کلیساٶں کو مساجد میں تبدیل کردیا تھا حالانکہ یہ مسلمانوں پر بہتان عظیم ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ ایسے متعصبانہ واقعات سے پاک ہے سواٸے چند ایک کلیسا کے۔

مسلمانوں کے دور حکومت میں عیساٸیوں نے بیت المال سے بھی اسلامی ممالک میں کلیسا تعمیر کراٸے ہیں۔مسلمانوں نے مساجد ڈھا کر کلیسا کے لیے جگہ دی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے جن علاقوں کو بزور شمشیر فتح کیا ہو وہاں مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کلیسا کو کسی مصلحت کے تحت مسجد میں تبدیل کریں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے اس اختیار کا بہت کم استعمال کیا اور جو جگہ صلح کے ذریعے فتح ہوی ہو وہاں شرعا بھی یہ مسلمانوں کیلٸے جاٸز نہیں ہے ۔سپین کو عیساٸیوں نے جنگ نہیں بلکہ ایک معاہدے کے تحت فتح کیا تھا۔ فرڈیننڈ اور ازابیلا ابوعبداللہ کے ساتھ قبضے سے پہلے چند شراٸط پر دستخط کرچکے تھے جن میں یہ شراٸط بھی تھے کہ مساجد بدستور قاٸم رہیں گے اور مسلمان اپنی مذہبی امور میں آزاد ہوں گے لیکن ان ظالموں نے اس کے باوجود مسلمانوں کو جبرا عیساٸی بنا دیا۔ میں اکثر اوقات اس موقع پر ول ڈیورنٹ کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں، اس بار پھر وہی عبارت لکھتا ہوں:
The peninsular jews lost their freedom which they had enjoyed under the lenient ascendency of Muslims. The story of Philosphy. The odyssey of Jews.

مسلمان کے علاوہ یہودی بھی اپنی آزادی کھو گٸے جو ان کو مسلمانوں کی حکومت میں حاصل تھی ۔وہاں پر انھوں نے جامعہ غرناطہ میں علوم وفنون حاصل کرکے اپنے تہذیب وثقافت کو کافی پروموٹ کیا تھا۔


اب آتے ہیں محمد بن قاسم کی طرف کہ انکے آنے کے اسباب کیا تھے؟


برِ صغیر میں محمد بن قاسم کی آمد کی روداد کچھ یوں ہے کہ لنکا (سیلون) کے غیر مسلم راجہ نے ایک عرب مسلمان تاجر کے یتیم بچوں، بیوہ اور چند دوسرے عازمینِ حج کو نہایت قیمتی تحائف کے ہمراہ خلیفہ دمشق کی خدمت میں روانہ کر دیا تاکہ اس کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ مگر ان کے جہاز کو دیبل کی بندرگاہ (کراچی) کے قریب لوٹ لیا گیا اور مسافروں کو قیدی بنا لیا گیا۔ انہیں قیدیوں میں سے ایک عورت نے بآوازِ بلند حجاج کو مدد کے لیے پکارا کہا جاتا ہے کہ حجاج تک اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو وہ بے ساختہ پکار اُٹھا کہ یہ اب فوجی مصلحت کا وقت نہیں بلکہ قومی غیرت کا سوال ہے۔ حالانکہ انہیں دنوں مسلمان اندلس، سپین اور ترکستان کے محاذ علی الترتیب موسیٰ بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم کی قیادت میں کھول چکے تھے اور ایک تیسرا بڑا محاذ کھولنے کی گنجائش نہیں تھی ۔ حجاج نے اتمامِ حجت اور صورتِ حال کو پر اَمن ماحول میں نپٹانے کے لیے راجہ داہر حاکمِ سندھ کو لکھ بھیجا اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ داہر نے نہایت حقارت سے مختصر جواب بھیجا کہ ’انہیں قزاقوں نے پکڑا ہے اور وہ میری گرفت سے باہر ہیں۔ اگر ہمت ہے تو خود آ کر انہیں پکڑ لو۔‘


بالاخر حجاج نے آخری اقدام کا فیصلہ کیا اور خلیفہ وقت ولید بن عبدالملک سے اپنے منصوبے کی منظوری لے لی۔ اس نے اپنے چچا زاد بھائی کے نوجوان سترہ سالہ ہونہار بیٹے عمادالدین محمد بن قاسم پر اس مہم کو سر کرنے کی ذمہ داری ڈال دی۔ محمد بن قاسم نے یہاں کی ستم زدہ اور مظلوم آبادی سے اتنا آبرو مندانہ سلوک کیا کہ اب اس کی فوج میں 50 ہزار سپاہی تھے۔ ظاہر ہے یہ نہ تو سب کے سب عرب تھے نہ غیر مسلم سندھی بلکہ ان میں سے اکثر نو مسلم سندھی تھے جو اس کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے تھے اور اسے ان پر اتنا اعتماد تھا کہ اس نے مہاراجہ قنوج کو اطاعت قبول کرنے یا مقابلہ کرنے کو لکھ بھیجا تھا۔

اس کے علاوہ اسلام میں غلامی کے تصور کو یہ بہت غلط انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے کہ اسلام نے غلامی کا اجازت دے کر گویا انسانیت کے ساتھ ظلم عظیم کیا۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جس کے ازالے کیلٸے بھی پس منظر کو دیکھنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آزاد انسان کو ہرگز اسلام میں غلام نہیں بنایا جاسکتا۔دوسری بات یہ ہےکہ غلام بنانا کوٸی فرض واجب بھی نہیں بس ایک مباح کام ہے۔ غلام بنانے کی اجازت دے کر اسلام نے انسانیت پر بڑا رحم کیا ہے۔ وہ کیسے؟ آخر میں خود سمجھ جاٶ گے۔ اس وقت قیدیوں کے تبادلے کا کوٸ دستور موجود نہیں تھا تو قیدیوں کیساتھ کیا کرتے؟ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس غیرمسلموں کے قیدی ہو اور انکے پاس مسلمانوں کے قیدی ہو اور آپس میں معاہدہ ہوچکا ہو تو ان کے تبادلے کا بندوبست کرنا چاہٸے۔ اس میں تین آپشنز تھے:
١۔ ان کو مفت رہا کردیا جاٸے۔
٢۔ان کو قتل کردیا جاٸے۔
٣۔انہیں عمر بھر قید میں رکھا جاٸے۔


پہلے پواٸنٹ پر عمل کرنا دشوار تھا کیونکہ دشمن کو چھوڑنے کے بعد وہ دوبارہ قوم کیلٸے خطرہ بن سکتا تھا۔
دوسرے پواٸنٹ پر اگر عمل کیاجاتا تو شاید قیدیوں میں بعض صاحب علم وہنر جن سے انسانیت کو فاٸدہ تھا وہ بھی مارے جاتے۔
تیسرا نمبر پواٸنٹ یعنی عمر بھر قید میں رکھنا بھی عدل کے تقاضوں کے خلاف تھا لہذا ان میں اعتدال والا راستہ غلام بنانا تھا لیکن ایسا غلام نہیں جس کا تصور میرے اور آپ کے ذہن میں ہے۔ آقا نبی کریمﷺ نے غلاموں کے اپنے الگ حقوق بیان کٸے ہیں۔ فرمایا تم میں سے کوئی ’میرا غلام‘ یا میری’باندی‘ نہ کہے اور نہ غلام ’ میرا رب‘ کہے ۔ مالک کو ’میرے بچے‘ ، ’میری بچی‘ کہنا چاہیے اور غلام کو چاہیے کہ ’میراسردار‘یا ’سردارنی‘ کہے۔ کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور رب تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔“(۱۵)

”تین شخص ایسے ہیں جن کو دوہرے اجر ملیں گے۔ ایک وہ جو اپنی باندی کو تعلیم دے اور عمدہ تعلیم دے،اس کو ادب سکھائے اور خوب سکھائے اور اس کو آزاد کرکے خود اس سے نکاح کرلے ۔دوسراوہ شخص ہے جو اہل کتاب تھا اور پھر اسلام لے آیا۔تیسرا وہ شخص ہے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور سید کی خیر خواہی کرتا ہے۔“(۲۸)


ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو خود کھاٸیں وہ غلاموں کو کھلاٸیں اور جو خود پہنیں وہ غلاموں کو پہناٸیں۔
ایک اور موقع پر ایک صحابی سے فرمایا کہ اگر آپکا غلام ستر بار غلطی کرے تو ستر بار معاف کرو۔ اسی طرح غلاموں کے حقوق پر سینکڑوں احادیث موجود ہیں۔


چونکہ غلام مالک کا سرمایہ تھا اس لٸے ہر مالک یہی چاہتا تھا کہ میرا غلام مہذب اور پڑھا لکھا بن جاٸے۔ انھوں نے اپنے غلاموں کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا یہاں تک کہ وہ وقت کے اٸمہ اور امت کے رہبر ورہنما بنے جیساکہ امام نافعؒ۔ان غلاموں کی بھی ایک طویل فہرست ہیں جنہوں نے امت کی قیادت ی تھی لیکن اس کیلٸے وقت درکار ہے، یہ الگ موضوع ہے۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی غلامی کا تصور موجود ہے لیکن انھوں نے غلاموں کے حقوق صراحت کیساتھ بیان نہیں کٸے ہیں۔ان میں غلام پر کٸ سماجی پابندیاں بھی تھی۔
مسلمان علم دشمن تھے یا علم دوست کافی مفصل موضوع ہے۔ یہ دوسری قسط میں ان شإ اللہ۔


Refrences on Roderic rape:
Medievel and Renaissance Drama in England page 180
Arab Nationalism The politics of History in the Modern Middle East.
From the glory of conquest to paradise lost. Page 71
Power,petronage and memory in early Islam prospectives on Umayyed Elites.
Politics and prophecy in sixteenth century Spain. Page 199
-Fani

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے