کالم

معاشی بحران کی جڑیں گہری ہیں

فروری 1, 2020 3 min

معاشی بحران کی جڑیں گہری ہیں

Reading Time: 3 minutes

ایف بی آر کے چیئرمین پھر بیمار ہوگئے ہیں اور ان کی اس بیماری کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ٹیکس اہداف پورے ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے، جی ہاں اس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والا معاملہ نہیں ہے۔

عمران خان کا پہلا مقدمہ تو یہ تھا کہ لوگ دراصل ٹیکس دیتے ہیں لیکن اس میں چوری ہوجاتی ہے،چوروں کا پیٹ اتنی چوری سے نہیں بھرتا اور یوں وہ چور قرض لیتے ہیں اور پھر وہ قرض میں بھی چوری کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے جلسوں میں للکارتے نظر آتے تھے کہ اصل مسئلہ وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ ان میں خُرد بُرد ہے۔ وہ محیرالعقول اعداد و شمار بتاتے رہے اور ان کے پیروکار ان کی اس دھن کو ہی پکا راگ سمجھ کر اس پر سر دھنتے رہے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن میں انسان کو کچھ بھی کہنے کی آزادی ہوتی ہے بھلے وہ کسی سرکاری افسر کو اپنے ہاتھ سے پھانسی لگانے کی بات ہو یا بجلی کے بل نذر آتش کرنے کی ترغیب۔

اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد ابتدائی عرصہ تو عمران خان اسی جیٹ لیگ کا شکار رہے اور سابقہ حکومتوں کے لئے گئے قرض کی چھان بین کے لئے کمیٹیاں تشکیل دیتے رہے گویا بیرونی و اندرونی قرضے براہ راست سابق حکمرانوں کے اکاوُنٹس میں ہی کریڈٹ ہوتے تھے۔

ہینگ اوور کے ختم ہونے کے بعد جب حقیقی زندگی سے واسطہ پڑا تو ان کی حالت عمیرہ احمد کے ناول کی ہیروئین کی سی ہوگئی جو اپنے گھر تو یہ سوچتی تھی کہ سہاگن ہونے کے بعد وہ نئے گھر کی مالکن ہوگی لیکن وہاں ساس کا راج پا کر سر پر پٹی باندھ کر توجہ کی طالب بن جاتی ہے۔

پھر موقف یہ ہوگیا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور یہ دعوی کے آٹھ ہزار ارب اکٹھے کر کے دوں گا ہوا ہوگیا۔
کون ٹیکس نہیں دیتا؟ جی ڈی پی میں کس چیز کا سب سے زیادہ حصہ ہے قسم کے اصلی والے اعداد و شمار انہیں کبھی نہیں بھائے، لہذا اپنا رُخ زیبا دکانداروں اور تاجروں کی طرف کر لیا اور شبر زیدی کو حکم دیا کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائی۔
گویا زرعی آمدنی والے عفریت کی بجائے وہ کمتر برائی کی سرکوبی کے لئے میدان عمل میں نکل آئے۔

تاجر تنظیموں نے حسب روایت اپنی شٹر پاور کو استعمال کیا تو محکمہ زراعت کی جانب سے ان کے لیڈروں کو ٹیلی فون کالز ہوئیں اور وقتی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس چھوٹے سے قلعے کو فتح کر کے ایک بہت بڑی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا عمل شروع کرنے والے ہیں۔

اس دوران زیرزمین آبدوزوں سے نواز زرداری کیمپ میں خاصی دراڑیں ڈالی جاچکی تھیں لیکن ایک بار بھی عوام و خواص میں یہ پیغام نہیں گیا کہ کچھ بھی ہوجائے عمران خان نے اس ملک میں پانچ سال وزیرآعظم رہنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا مارچ اور دھرنا گویا تاجروں کے لئے ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوا اور ان کے اردگرد تانے گئے تمبووُں کے بمبو اکھڑ گئے اور محکمہ زراعت کو بھی یہ احساس ہوا کہ وہ وائرس جو وہ عوام میں داخل کرنا چاہتے تھے ان کے لئے بھی ضرر رساں ثابت ہو رہا ہے اور یوں تن پر موجود آخری چادر بھی تیز ہوا کے جھونکوں کی نظر ہوئی۔

گویا اب حفیظ شیخ اور عمران خان کا شبر زیدی سے یہ تقاضہ ہے کہ بوجوہ کمزور سیاسی پوزیشن وہ سختی بھی نہ کریں اور ٹیکس بھی بڑھائیں،ایسے کاموں کے لئے پنجابی اصطلاح ترلا کرنا مستعمل ہے اور آج کل وزیرآعظم بھی ترلا کر رہے ہیں اور چئیرمین ایف بی آر بھی۔

وزیرآعظم کو غالباً ری ہیبلیٹیشن کے ٹیکے لگائے گئے اور وہ سندھ میں وزیراعلی سے ملے اور اتحادیوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹیاں بھی بنا دیں یعنی وہ جان گئے ہیں کہ اپنی جنگ وہ محکمہ زراعت سے نہیں لڑوا سکتے۔
بظاہر معیشت میں بہتری کے امکانات کم ہیں کیونکہ کمزور حکومت اپنی رٹ نہیں منوا سکتی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے