پاکستان کالم

مرد مارچ بمقابلہ عورت مارچ

مارچ 9, 2020 4 min

مرد مارچ بمقابلہ عورت مارچ

Reading Time: 4 minutes

احسان حقانی @haqbrother

خواتین کے عالمی دن پر آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں ایک ہی سڑک پر ایک ہی وقت میں دو مارچ منعقد ہوئے۔

ایک عورت مارچ تھا، جس میں بمشکل پندرہ فیصد خواتین تھیں اور باقی مرد حضرات۔ سڑک کے دوسرے کنارے مرد مارچ تھا جس میں دو چار خواتین بھی تھیں ۔ دونوں ہی مارچوں میں جوش و جذبہ سے بھری اور علم و دانش سے خالی تقریروں کا موضوع بحث ایک ہی تھا، یعنی عورت کا مقام اور اس کے حقوق وغیرہ ۔ دونوں کے درمیان سات آٹھ فٹ اونچی ایک عارضی دیوار کھڑی کی گئی تھی جس کی حفاظت کے لئے پولیس والوں اور پولیس والیوں کی بھاری نفری متعین تھی ۔ دراصل عورت کی حقوق پر ملکیت کے حصول کے لئے جھگڑے کا خطرہ تھا۔

احسان حقانی، اسلام آباد میں مقیم صحافی اور مصنف ہیں۔ گزشتہ 20 برس سے قومی و بین الاقوامی امور پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

دونوں اطرف میں لاءوڈ سپیکر پر چیخ و پکار کا مقابلہ کافی دیر تک جاری رہا ۔ دونوں کو ایک دوسرے کی آواز تو سنائی دے رہی تھی، لیکن شور کی وجہ سے بات سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ دونوں نے ہی فرض کیا تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق کی رد میں تقریر کر رہا ہے۔ اور مفروضوں کی بنیاد پر جوابی تقریریں داغی جا رہی تھیں ۔ مرد مارچ کے شرکا کا انداز زیادہ جارحانہ تھا لیکن عورت مارچ کے شرکاء بھی ڈٹے رہنے کا عزم دہرا رہے تھے۔

مردوں کا مارچ کچھ دینی جماعتوں کا مشترکہ مارچ تھا ۔ عورتوں کے مارچ میں بھی مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے ایک ہی پنڈال میں جمع تھے ۔ مردوں کے مارچ میں زیادہ تر شرکا لمبی داڑھی والے اور مذہبی وضع قطع کے تھے ۔ وہ مسلمان خواتین کی عظمت کی کہانیاں سنارہے تھے اور دین کی روشنی میں عورت کے اونچے مقام اور کسی حد تک تقدس کا دعویٰ کر رہے تھے۔

عورت مارچ کے شرکا میں ٹاءٹس پہنی الٹرا ماڈرن خواتین بھی تھیں اور کچھ باحجاب اور پردہ نشین بھی ۔ البتہ عورت مارچ کے مرد شرکا کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس قسم کے تھے ۔ ایک شریک مارچ نے خود کہا کہ زیادہ تر شرکا دراصل شکاری ہےں جو آزاد خیال خواتین کے جم غفیر کی آرزو لے کر آئے ہیں لیکن خواتین کی کم تعداد دیکھ کر انہیں خاصی مایوسی ہورہی ہے۔

عورت مارچ کے اختتام پر دونوں تنظیموں کے بینرز کی کہانی۔ فوٹو: pakistan24

میں کافی دیر دونوں مارچوں کے درمیان کھڑا سوچتا رہا ۔ میری طرح باقی لوگ بھی دو انتہاؤں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں ۔ اگر مارچ کے حق میں بات کرو، تو دین دار لوگ بے دینی پر اتر آتے ہیں ۔ وہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں پر خط تنسیخ کھینچ لیتے ہیں ۔ ان کے جوابی تہمتوں اور اظہار غیض و غضب سے آپ کی آخرت تو شاید خراب نہ ہو، لیکن دنیا ضرور خراب ہو سکتی ہے ۔ اس طرح اگر آپ کسی بھی وجہ سے مارچ کے خلاف رائے رکھتے ہیں تو بڑے بڑے آزاد خیالوں کی لبرلزم اور سیکولرزم کی قلعی کھل جاتی ہے اور وہ صاف صاف فتویٰ بازی پر اترآتے ہیں ۔ دونوں اطراف میں مخلص لوگ موجود ہیں جو عورت کی حالت زار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا موضوع بحث وہ لوگ ہیں ، جو ہر معاشرتی دکھ کو بنیاد بنا کر اپنا منجھن بیچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دونوں اطراف میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جودوسروں کی عورتوں کے لئے تو حقوق، آزادی اور تقدس چاہتے ہیں لیکن اپنی عورتوں کو نہ جائداد میں حصہ دیتے ہیں ، نہ تعلیم میں اور نہ زندگی میں۔

ایک بات بہر حال واضح ہے کہ آج اگر مذہبی لوگ عورت کے حقوق کے لئے باہر نکلے ہیں تو یہ عورت مارچ ہی کی برکت ہے ۔ گزشتہ سال کے بدتمیز عورت مارچ نے بڑے بڑے غیرت مندوں کو ماءوں ، بہنوں اور بیٹیوں کا اعلیٰ مقام یاد دلایا ہے ۔ آج کے عورت مارچ میں قابل اعتراض نعرے نہ ہونے کے برابر تھے ۔ یہ دینداروں کی اظہار ناراضگی کا اچھا نتیجہ ہے۔

ایک خاتون پلے کارڈ بلند کر کے قنات کے پار مذہبی تنظیم کو دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوٹو: پاکستان 24

عورت کی حالت زار قومی توجہ کی مستحق ہے ۔ آج ایک ہی سڑک کے دو کناروں پر ہزاروں مرد وخواتین ایک ہی موضوع پر احتجاج کر رہے تھے لیکن ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں تھا ۔ جب تک ہم ایک دوسرے پر چیخنا بند نہیں کرتے ، ایک دوسرے کی بات سننا نہیں سیکھتے، اس وقت تک ہم اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی سڑک پر نکل آئیں ، خیر سے زیادہ شر کا خطرہ رہے گا ۔ کاش یہ بات سمجھ داروں کی سمجھ میں آجائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے