کالم

آزادی مارچ پر اختلافات کیوں!

مارچ 9, 2020 3 min

آزادی مارچ پر اختلافات کیوں!

Reading Time: 3 minutes

ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں ریلیاں اور مظاہرے کرتی ہیں اور خواتین پر تشدد، جنسی ہراسگی، مساوی حقوق نہ ملنے کے خلاف شہر شہر، قریہ قریہ آواز بلند کرتی ہیں۔

خواتین کا عالمی دن پہلی بار 1975 میں پورے زور و شور کے ساتھ منایا گیا۔ بعد ازاں 1977ء سے 8 مارچ کا دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خواتین کے لیے مختص کیا ہے۔

پاکستان میں خواتین آزادی مارچ کے خلاف سوشل میڈیا پر کافی منفی پراپیگنڈا کیا گیا اور اس مارچ کو اینٹی اسلام اور اینٹی پاکستان گردانا گیا لیکن حقیقت قدرے مختلف ہے۔

آزادی مارچ سے کچھ روز قبل ہی ایک لائیو ٹی وی ٹاک شو میں لکھاری و ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر نے  سماجی کارکن ماروی سرمد کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے اس تحریک کے بارے میں نئی بحث چھیڑ دی۔

سوشل میڈیا پر اس تحریک کے حق میں اور اس کے مخالف افراد نے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری شروع کرتے ہوئے اخلاقی اقدار کو روند ڈالا۔

لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں عورت آزادی مارچ کو روکنے کیلئے پیٹیشنز بھی دائر کی گئی۔ عدالت نے مارچ کو جمہوری و آئینی حق قرار دیتے ہوئے اجازت دی لیکن اسلامی، اخلاقی و معاشرتی اقدار کی پاسداری کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ احکامات سے پہلو تہی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

اتوار 8 مارچ کو ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور عدالتی احکامات کا خاص خیال رکھا گیا۔ لیکن اسلام آباد میں عورت آزادی مارچ کو مذہبی جماعت کے کارکنان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔

نیشنل پریس کلب کے باہر شہری انتظامیہ سے اجازت لے کر خواتین و انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزادی مارچ منعقد کیا جبکہ ساتھ ہی پردہ نما باؤنڈری لگا کر مذہبی رہنماؤں و کارکنان نے حیاء مارچ کا اہتمام کیا۔

مارچ اختتام پذیر ہونے کو آیا تو اچانک سے خواتین مارچ پر پتھر، جوتیں اور ڈنڈیں برسائے گئے اور پردہ نما باؤنڈری کو توڑ کر پار کرنے کی کوشش کی گئی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سفید شلوار قمیض میں ملبوث ایک نوجوان اینٹ اٹھا کر آزادی مارچ کی سمت سے بھی حیاء مارچ کے شرکاء پر جوابی وار کرتا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے حالات کو بروقت کنٹرول میں لے لیا۔ اس پتھراؤ میں میڈیا رپورٹس کے مطابق  3 خواتین جبکہ ایک مولوی صاحب زخمی ہو گئے۔ اور ایک نجی نیوز چینل کے رپورٹر اکرام اللہ بھی پتھر لگنے شدید زخمی ہوئے۔ بحرحال اس بھگ دھڑ میں نقصان پہلے سے مظلوم خواتین کا ہی ہوا۔ 

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے میڈیا کو بتایا کہ حیاء مارچ شرکاء نے اجازت طلب نہیں کیا تھا جبکہ پتھراؤ کی پہل بھی انہی کی جانب سے کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عدالت نے عورت آزادی مارچ کی اجازت دی اور آئین شہریوں کو احتجاج کا حق دیتا ہے تو کیا کسی شخص یا گروہ کی جانب سے آئینی حق کسی شہری سے چھیننا غداری کے زمرے میں آتا ہے! کیا عورت مارچ پر حملہ کرنے والے افراد توہین عدالت کے مرتکب قرار پائینگے یا نہیں!

ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ طرح طرح کی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جن میں سب سے اہم میرے نزدیک وراثت میں بہن، بیٹی کو ان کا حق نہ دینا، شادی و بیاہ کے سلسلے میں لڑکی کی غیر رضامندی، گھریلو جنسی تشدد، معیاری تعلیم فراہم نہ کرنا، اور دفاتر میں جنسی ہراسگی وغیرہ جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ 

اہم سوال یہ ہے کہ خواتین مارچ کو اسلام و پاکستان کے خلاف کیوں گردانہ جاتا ہے؟ کیا اسلام یا آئین پاکستان خواتین کو حقوق فراہم نہیں کرتا؟ اگر اسلام و آئین پاکستان میں حقوق موجود ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے جدوجہد کرنا غیر اسلامی و پاکستان کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟

کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام مکاتب فکر کے لوگ یک زباں ہوکر خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کرے؟ اور ان پر ہونے والے مظالم و تشدد کو روکنے کیلئے مل کر تگ و دو کرے؟  شہر شہر، قریہ قریہ گھومنے کے بجائے کیا کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاسکتا کہ بیٹھ کر خواتین کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرکے ان کے حل کی جانب قدم اٹھایا جائے؟

کیا ہی بہتر ہو کہ دائیں اور بائیں بازوؤں کے نظریات رکھنے والے حضرات ایک دوسرے پر اپنے اپنے نظریات تھوپنے کے بجائے خواتین کے جائز مطالبات پر متحد ہو کہیں کہ عورت کو پڑھاؤ، عورت کو وراثت میں حصہ دو، دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی عزت کرو، جنسی تشدد و ہراسگی کا خاتمہ کرو! کاش کہ ان حقوق پر قوم متحد ہو جائے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے