فقیہان شہر کی شرعی وبا
Reading Time: 2 minutesمحمد حسنین اشرف
مورخ اگر نسیم حجازی نہ ہوا تو وہ لکھے گا کہ دنیا مر رہی تھی اور فقیہہ شہر خوردبین سے ہتھیلی پر ٹکی شرعی نجاست ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ لکھے گا جب کفر و اسلام پر بیک وقت آفت آن پڑی تو منبر و محراب اور دیوار گریہ موت کے مسائل میں الجھی پڑی تھی۔ یہ موت کے سوداگر، زندگی سے زیادہ جنازوں کے مسائل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے وجود سے انسانیت کو رتی برابر فائدہ تو کیا ملنا ہمیشہ کی طرح یہ گدھ لاشوں پر سے گوشت نوچ کر اپنا پیٹ بھرتے رہے ہیں اور ان کے پیروکار یہ فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔
ان کے منبر و محراب سے جہاں اس احتیاط کی پیروی ہونی تھی کہ بارش ہو تو مدینہ کی گلی میں بلال کی آواز آج الصلاۃ خیر من النوم کے ساتھ یہ حکم بھی سنائے کہ صلو فی رحالکم۔ جہاں ان کو یہ بحث کرنی تھی کہ وبا کے اس تسلسل کو کیسے توڑا جائے یہ لوگ نجانے کن لایعنی بحثوں میں قوم کو الجھا گئے۔ توکل کا یہ مطلب تو شاید پیغمبر پر بھی القا نہ ہوا ہوگا ورنہ وہ بے سپر اپنے ساتھیوں کو بھیج دیتے۔
لیکن مورخ نسیم حجازی ہے وہ لکھے گا کہ مرشد ہی واحد تھے جو امت کے غم میں گھل گئے، پاس شریعت یہ تھا کہ وبا کے دنوں میں ہاتھ پر شرعی نجاست قبول نہ تھی۔ اس کمبخت کا قلم مرتی دنیا کی سسکیوں کو فراموش کرکے فقہائے ملت کو متقی پرہیزگار بنا کر آپ کا اسوہ قابل تقلید دکھائے گا کہ انہوں نے ممولے کو شہباز سے لڑا دیا۔ لیکن کوئی اس بدبخت ممولے کی تو پوچھے گا نہیں جس کی لاش (لاشوں) پر ان عظیم المرتبت لوگوں نے اپنی عظمت کا مینار کھڑا کیا تھا۔