شعبہ طب کے سپاہیوں کو سلام
Reading Time: 4 minutesمیاں کاشان
اللہ تعالیٰ کی تقسیم بڑی نرالی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے جسے چاہتا ہے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس ریاست میں کچھ الگ نظام کارفرما ہوتے ہیں، ریاست کے بعض شعبوں کو زیادہ اختیارات، مراعات اور انعامات دیے جاتے ہیں اور بعض محض مناسب اجرت سے بھی محروم ہوتے ہیں ۔ اپنی ناقص سی سوچ کے مطابق ایک اہم شعبے کی جانب توجہ مبذول کروانے کی سعی اس امید پہ کرنے جارہا ہوں کہ کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
ارض پاک میں افواج کی قربانیوں، ذمہ داریوں اور کردار سے کسی بھی ذی شعور کو انکار نہیں لیکن اسی طرح شاید آپ باخبر ہوں گے کہ ریاست کے کسی بھی دوسرے شعبے کے برعکس افواج کو سہولیات، مراعات اور انعامات بھی زیادہ میسر ہیں۔ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ ان کی ذمہ داریاں بھی سب سے ہٹ کے ہیں۔
آج میں ایک اور شعبے کے ساتھ ان کی ذمہ داریوں، درپیش مسائل، دستیاب مراعات اور سہولیات میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں۔ اور وہ شعبہ کے صحت کا شعبہ۔ پاک افواج ارض پاک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے قوم وملک کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس اور دیگر عملہ (صحت کے شعبہ سے وابستہ عملہ) ملک وقوم پر حملہ آور دیدہ ونادیدہ دشمنوں ( بیکٹیریاز، وائرسز)، جراثیموں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔
پاک افواج کے سپاہی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے فرنٹ لائن کے سپاہی ہوتے ہیں۔ طب کے شعبے سے وابستہ افراد بیماریوں سے ہماری حفاظت (علاج معالجہ اور بچاؤ) کرتے ہوئے فرنٹ لائن کے سپاہی ہوتے ہیں ۔ پاک افواج کے سپاہی ہر وقت مطلب دن کے چوبیس گھنٹے سال کے تین سو پینسٹھ دن آن ڈیوٹی ہوتے ہیں، طبی عملہ بھی سال کے تین سو پینسٹھ دن اپنے فرائض کی انجام دہی کیلیے آن ڈیوٹی ہوتا ہے۔
ہم گھروں میں عید، شب برات اور دیگر تہواروں پہ تعطیلات سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں تو پاک افواج کے جوان دن اور رات کی تفریق کیے بنا سرحدوں پہ پہرہ دیتے ہیں کہ قوم امن چین اور سکون سے رہے۔ اسی طرح طبی عملہ ان تہواروں پہ بھی اسپتالوں اور طبی مراکز میں اپنی اپنی ڈیوٹی پہ موجود ہوتا ہے۔ ان بیماریوں اور جراثیم سے فقط ہمارے لیے دن اور رات کی تمیز کیے بنا لڑ رہا ہوتا ہے۔ جب کبھی ناگہانی صورتحال در پیش ہوتی ہے تو پاک فوج کی چھٹیاں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح انہی ناگہانی صورت احوال میں جو سب سے پہلا کام ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسپتالوں میں ایک مراسلہ جاری ہوتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ تما م عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ غرضیکہ ذمہ داریوں کے معاملے میں دونوں شعبے میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ اب بات کر لیتے ہیں ان دونوں شعبوں کے سپاہیوں کو میسر سہیولیات اور مراعات کی تو ریاست میں ایک سمجھداری موجود ہے کہ دفاعی ضرویات کو پورا کرنے کیلیے ہم نے اپنے سالانہ بجٹ میں سے ایک مخصوص حصہ ہر صورت مختص کرتے ہیں حالانکہ پاک افواج کی ذمہ داریوں اور قربانیوں کے مقابلے میں یہ ناکافی ہے۔ جبکہ صحت کے شعبے کیلیے جس کے محافظ تقریبا ویسی ہی ذمہ داریاں اور قربانیاں دیتے ہیں ان کے لیے جو فنڈ مختص ہے وہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے۔
پاک افواج کے تقریبا تما شعبوں کا تنخواہوں اور پنشن کا اپنا ایک مؤثر نظام موجود ہے جس میں تقریبا کبھی خلل نہیں آتا۔ اس کے برعکس ڈاکٹرز ، نرسز پیرامیڈکس آئے روز اپنی تنخواہوں کے مسائل کیلیے سراپہ احتجاج نظر آتے ہیں اور ان کے پنشنرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
افواج کے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کیلیے بندوق، گولہ بارود، ٹینک، میزائلز غرضیکہ اعلیٰ سے اعلیٰ ہتھیار فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور طب کے شعبے میں آج تک ہسپتالوں میں طبی عملہ کو کبھی بھی انکی ضروریات کے مطابق آلات میسر ہی نہیں ہیں۔ پاک افواج کو دشمن پر نظر رکھنے، ان کی چالوں کو سجھنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کیلیے، ریڈارز، آبدوز اور دیگر سر ویلینس آلات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اور بد قسمتی سے ارض پاک میں شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر ہی ایسے اسپتال ہونگے جن میں جراثیموں ، بیماریوں کی تشخیص اور شناخت کیلیے مکمل لیبارٹریز اور سہولیات موجود ہونگی۔ پاک افواج کی حوصلہ افزائی کے لیے تو آج تک جنگوں یا جنگ جیسی صورحال میں متعدد ترانے اور ملی نغمے بنائے جاتے ہیں کیا کبھی کسی نے ان طبی سپاہیوں کی ڈینگی سے لڑنے کے دوران، ہیپا ٹائٹس، ایڈز یا موجود کورونا وائرس سے لڑنے کے دوران، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی ترانہ بنایا یا کم از کم بنانے کا سوچا بھی ہے؟
پاک افواج کے نامی یا گم نام سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے پر شہید یا غازی ہونے کی صورت اس کی بہادری کے اعتراف میں تمغوں اور انعامت سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ان موذی وائرسز سے لڑنے اور ان سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کے دوران ڈاکٹرز ، نرسز اور دیگر طبی عملہ جب خود ان موذی دشمن انسانیت وائرسز کا شکار ہو کر ان امراض میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں تو کیا کبھی کسی کو توفیق ہوئی کہ انکے لیے کسی تمغے کا، انعام کا سوچے؟
اس تحریر کا مقصد پاک افواج کی قربانیوں کو اگنور کرنا نہیں بلکہ معاشرے کی توجہ ایسے دوسرے شعبے کی قربانیوں کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے۔
ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ارض پاک کے دفاع کیلیے پاک افواج کی قربانیاں لازوال ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ پوری قوم بشمول پاک افواج کے افسران وسپاہیوں کو ان موذی جراثیموں سے بچانے کے دوران طبی عملے کی جانب سے دی گئی قربانیاں بھی لازوال ہیں۔
پوری قوم کو چاہیے کہ آج پاکستان ڈے کے موقع پر طبی سپاہیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین وعقیدت ضرور پیش کریں۔