وبا اور گلگت بلتستان کے حالات!
Reading Time: 4 minutesعبدالجبار ناصر
کورونا وائرس نے دنیا بھر کی پاکستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ابتدا میں سندھ سب سے زیادہ متاثر نظر آیا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل خطرہ پنجاب ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے اور نوجوان ڈاکٹر محمد اسامہ ریاض مرحوم کی موت بھی سخت پیغام ہے۔
میڈیا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرح وزیراعلٰی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے بھی کچھ اقدام کیے ہیں۔
ہم نے سندھ میں جو کچھ دیکھا ہے اس کے حساب سے حکومت گلگت بلتستان کے لیے وبا پر کنٹرول کرنا آسان بھی ہے اورانتہائی مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ ان کے پاس شہروں کے سوا باقی علاقوں کو بیرون ممالک یا ملک کے دیگر علاقوں آنے یا ان سے ملنے والوں کو تلاش کرکے ’’قرنطین‘‘کرنا آسان ہے ، کیونکہ ایک تو آبادی بہت کم ہے اور دوسرا یہ کہ لوگ تقریباً ایک دوسرے کی بکریوں تک کو پہچانتے ہیں ، اس کے لئے عوام کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بھی کہ گلگت بلتستان کا اہم داخلی اور خارجی راستہ (شاہراہ قراقرم )ایک ہی ہے اور سرحد پر چیک کرکے متاثرین کو تلاش کرنا آسان ہے۔یہ کہ قومی سلامتی کے اداروں کا اثر رسوخ بھی کام آئے گا اور بالخصوص موجودہ فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمودخان کا کردار تعیناتی سے تاحال قابل تعریف ، قابل تقلید اور قابل تحسین رہا ہے اور وہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے لئے بہت زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں ، کیونکہ وفاقی حکومت پر انحصار کرنا سب سے بڑی بے وقوفی ہوگی(وفاقی حکومت ویسے بھی سندھ ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو سوتیلی سمجھتی ہے)، یہ بھی کہ زائرین کے معاملے پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو مشکلات کا سامنا ہوگا ۔ یہ بات بھی خوفناک ہے کہ مارچ سے گلگت بلتستان کے ان لوگوں کی واپسی شروع ہوجاتی ہے ، جو ملک کے مختلف شہروں میں عارضی یا مستقل رہتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق یہ لوگ گلگت بلتستان کی کل آبادی کا 20 سے 25 فیصد ہیں۔
معاملہ آسان ہو یا مشکل وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اور عوام کو خطے کی بقا کے لئے چند سخت ترین اقدام کرنے ہونگے، ورنہ یہ خطہ تباہی کا شکار ہوسکتا ہے۔ مختلف ذرائع کا دعویٰ ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد ظاہر کی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے یعنی یہ درجنوں، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزار سے زائد ہے ۔
سخت اقدام یہ کہ
(1) گلگت بلتستان کے تمام داخلی اور خارجی راستے 15 دن کے لئے مکمل سیل کردیں۔
(2)انتہائی مجبوری میں بھی کوئی داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے یا داخل ہوتا ہے تو اس کو آبادی سے دور کسی مقام پر 14 دن کے لئے قرنطین کر لیں ، بہتر یہ ہوگا کہ ہر ضلع کے داخلی مقام پر قرنطین قائم کیا جائے۔
(3)لاک ڈائون پر سختی سے عمل کرائیں اور جو خلاف ورزی کرے اس کے خلاف سخت ایکشن لیں اورروزانہ رپورٹ لی جائے ۔
(4)گلگت بلتستان میں آج بھی کسی حد تک معتبر یا محلہ کمیٹی سسٹم قائم یا بزرگوں کا اثر موجود ہے، ان کی مدد لی جائے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک یا بیرون ملک سے داخل ہونے والے افراد اور ان سے مل ملاپ کرنے والوں کو تلاش کرکے ان کا ڈیٹا تیار کیا جائے اور 15 دن کم سے کم ان کو گھروں میں قرنطین کیا جائے۔
(5)برف باری کے حالیہ سیزن کی وجہ سے ویسے بھی کئی علاقے قدرتی قرنطین ہیں ، کم سے کم بھی 10 اپریل تک کسی کو ان علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر کوئی زیادہ ہی مجبوری ہوتو سخت چیکنگ اور اسکریننگ کے بعد اس شرط کے ساتھ کہ وہ فرد 15 دن تک’’تنہائی‘‘میں رہے گا اور گائوں یا محلہ کا ذمہ دار نظر رکھے گا ، اس میں پولیس اور دیگر اداروں کی بھی مدد لی جائے۔
(6)ملک یابیرون ملک رہنے والے گلگت بلتستان کے افراد کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ معاملات کنٹرول ہونے تک کسی صورت گلگت بلتستان کا سفر نہ کریں اور حکومتی ہدایات کو نظر انداز کرنے والا خود ذمہ دار ہوگا اور جو زیادہ تیز بننے کی کوشش کرے اس کے خلاف کارروائی بھی ضروری ہے۔
(7) ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے لئے آلات ، اد ویات اور وسائل کا مکمل انتظام ہونا چاہئے ، اس ضمن میں وفاق پر مستقبل دبائو بڑھایا جائے ۔
(8) مقامی صاحب استطاعت افراد گلگت بلتستان میں موجود ہیں یا ملک یا بیرون ملک ان سے تعاون کی اپیل کی جائے اور فنڈ قائم کریں ۔
(9) لوگوں کی آمد و رفت روکنے اور لاک ڈائون سے یقینی اشیاء کی قلت ہوگی اور مقامی افراد کو پریشانی کا سامنا بھی ہوگا ، اس کے لئے ریلیف کی جامع پالیسی مرتب کی جائے ۔
(10) تمام صورتحال سے میڈیا کو باخبر رکھیں (لیکن میڈیا مین بھی سپر مین بننے کی کوشش نہ کریں) اور مقامی مذہبی شخصیات، مذہبی و سیاسی جماعتوں ، سماجی تنظیموں اور اداروں کو آن بورڈ لیا جائے اور ان کی مشاورت سے معاملات کو آگے لیکر جائیں ۔
(11) اسکریننگ اور چیکنگ پوائنٹس پر تعینات افراد کو مکمل تحفظ یعنی ماہرین کی ہدایات کے مطابق سامان فراہم کیا جائے ، ورنہ ڈاکٹر اسامہ ریاض مرحوم کی طرح ہمیں کسی اور سانحہ سے دوچار نہیں ہونا پڑے۔
(12)صورتحال پر عوامی تعاون کے بغیر کنٹرول کرنا صرف حکومت کے بس میں نہیں ہے، اس بات سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔
اگر ان نکات یا اس طرح کے دیگر نکات پر عمل کیا جائے تو ان شاءاللہ تعالیٰ اپریل کے وسط سے پہلے ہی اس وبا کا مکمل خاتمہ ہوگا۔