کالم

کرفیو نہیں کیئر فار یو

مارچ 25, 2020 4 min

کرفیو نہیں کیئر فار یو

Reading Time: 4 minutes

میاں کاشان


پیارے وطن پاکستان میں بدقسمتی سے چند غلطیوں اور بروقت لاک ڈاؤن کے فیصلے نہ کیے جانے کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بالآخر تمام صوبوں نے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔ لیکن صاحب کیا کیجیے کہ لاک ڈاؤن کے احکامات کے باوجود پورے ملک میں شاید صرف پانچ فیصد جگہوں پر باشعور عوام موجود ہیں جنہوں نے ان احکامات پر عملدرآمد کیا ہے۔ باقی پچانوے فیصد غیر سنجیدہ، کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے نابلد، بیوقوف اور ہٹ دھرم ہیں یا پھر کہا جاسکتا ہے کہ انہیں نہ تو خود سے پیار ہے اور نہ ہی اپنے پیاروں سے۔

اس میں کسی حد تک حکومتیں بھی قصور وار ہیں کیونکہ وہ عوام پر واضح نہیں کرسکیں کہ ان جزوی لاک ڈاؤن میں جن افعال (گھروں سے بےوجہ نکلنے، گھومنے پھرنے، اجتماعات وغیرہ) سے منع کیا گیا ہے، اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کیسے حرکت میں آئے گا اور کیا سزائیں ہوسکتی ہیں۔ ان ایک دو دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر جگہوں پہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے ہدایات کو اس پچانوے فیصد عوام نے ہوا میں اڑائے رکھا۔ لوگوں نے مارکیٹیں اور بڑے بازار تو بند کردیے ، تعلیمی دارے وغیرہ تو پہلے ہی بند تھے اور اب دیگر سرکاری اور نجی اداروں کی بندش کو غنیمت جان کر ان عقل کے اندھوں نے سیر و تفریح شروع کر دی ہے۔ پارک بند ہیں تو کیا ہوا لوگوں نے گروہوں کی شکل میں اپنے عزیزواقارب اور دوست احباب کے گھروں میں ملنے ملانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

کہیں منچلے ان دنوں پتنگ بازی کرتے دکھائی دیے تو کہیں کھیل کے میدانوں میں کرکٹ ، فٹبال اور دیگر کھیلوں کے مقابلے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی دھجیاں بکھیرنے میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، انہوں نے گلی محلوں میں اپنی کارنر میٹنگز شروع کر رکھی ہیں جو ان میٹنگز کا حصہ نہیں بن پارہیں انھوں نے ہمسائیوں کی خیر خیریت سے باخبررہنے کیلیے زیادہ سے زیادہ گھروں میں آنا جانا شروع کر دیا ہے۔ ایسے بہت سے معاملات مشاہدے میں آئے ہیں لیکن انتظامیہ بھی خاموش تماشائی نظر آئی۔ چند ایک جگہوں سے انتظامیہ کے حرکت میں آنے کی اطلاعات موصول ہوئیں جن میں پولیس کی جانب سے وہی پرانا گھسا پٹا طریقہ یعنی پکڑ دھکڑ اور پھر دیہاڑی لگا کر چھوڑنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں ہیں۔


جہاں ملک کی یہ بنیادی اکائیاں اس قسم کے معمولات میں مصروف ہیں وہیں ہمارے چند باشعور ذمہ داران نے جیلوں میں بند قیدیوں اور حوالاتیوں کو اس وباء سے بچانے کیلیے انکی رہائی کے اقدامات کروانے شروع کیے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے جیل کے نظام میں تمام قیدیوں کوایک دوسرے الگ تھلگ رکھ پانا ممکن نہیں اور اس وجہ سے ان میں اس وباء کے پھٹنے کا اندیشہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عمومی طور پر جب کسی چیز پر پابندی عائد ہوتی ہے تو خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، لیکن کورونا کے خطرے کے پیش نظر تو پہلے سے قید لوگوں کو بھی رہا کرنا پڑ رہا ہے تو پھر اس صورتحال میں کیا کیا جائے؟

موجودہ صورتحال کو مکمل کرفیو نہیں کہا جارہا، کیونکہ کرفیو میں خلاف ورزی کرنے والے کو گولی ماردینے کے احکامات ہوتے ہیں۔ یعنی اب لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی گولی ماری جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت بنا سختی کے سمجھنے والی ہے نہیں۔

مجھے پندرہ سال پہلے میرے شہر میں تعینات ایک پولیس افسر کا ایک آزمودہ طریقہ یاد آگیا تو سوچا کہ اسے شیئر کرتا ہوں ۔ شائد ارباب اختیار کو اس سنگین صورتحال میں عوام سے لاک ڈاؤن پر مکمل عملدراآمد کروانے میں آسانی ہی ہو جائے۔

تقریبا پندرہ سال قبل میرے شہر میں چند بااثر اور امیر گھرانوں کے بگڑے ہوئے لڑکوں نے موٹر سائیکل کے سائیلنسر اتروا کے ون ویلنگ اور گرلز کالچ کے باہر چھٹی کے اوقات میں بچیوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ کسی نے تھانے کے ایس ایچ او صاحب کو شکایت کی ۔ اس وقت ایک بہت ہی ایماندار اور دبنگ قسم کے تھانیدار ہمارے ہاں تعینات تھے۔ انھوں نے پہلے خود بالکل تنہا اور سادہ کپڑوں میں جا کے سارے معاملے کی جانچ پڑتال کی، پھر ایلیٹ فورس کی چار گاڑیوں کو شہر کے چار ایسے مختلف مقامات پر ذرا اوٹ میں کھڑا کروایا جہاں یہ اوباش زیادہ اودھم مچاتے تھے اور ان گاڑیوں میں لمبے لمبے ڈنڈے رکھوادیے۔ ایس ایچ او صاحب نے ایلیٹ فورس کے جوانوں کو حکم دیا کہ جیسے ہی ان کے آس پاس ایسے اوباش آئیں تو وہ پہلے ان لمبے ڈنڈوں سے انہیں ان کی موٹر سائیکلوں سے گرائیں۔

بعد میں ان ایس ایچ او سے ایک نشت ہوئی تو پوچھا کہ جناب آپ نے یہ کیا انوکھا طریقہ اپنایا تو فرمانے لگے کہ یہ لڑکے ایک تو نو عمر تھے اگر میں انہیں گرفتار کرتا تو اسی وقت ان کے بااثر والدین انہیں چھڑوالیتے یا اگر نہ بھی چھوٹتے تو ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑتا لیکن میری اس کارروائی سے آئندہ کئی سالوں تک یہاں دوبارہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوگا۔

ملک کو کسی بھی سنگین قسم کی صورتحال سے بچانے کیلیے لاک ڈاؤن پہ سختی سے عملدرآمد کروانا پڑنے گا۔

یہ عمل بنا عمر، جنس کا خیال کیے دہرایا جائے تب ہی انہیں کرفیو نہیں بلکہ کیئر فار یو کا مطلب سمجھ آئے گا اور ہم کورونا سے جیت پائیں گے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے