کالم

جرمنی وائرس کو کیسے کنٹرول کر رہا ہے؟

اپریل 7, 2020 5 min

جرمنی وائرس کو کیسے کنٹرول کر رہا ہے؟

Reading Time: 5 minutes

دہسار ملک ۔ جرمنی

کرونا وائرس یا جنگ عظیم سوم بپا ہو گئی ہے؟

دنیا میں کرونا سے دو لاکھ ہلاک ہوں گے یا بیس کروڑ یہ بات کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن آئندہ دس روز میں بالکل واضح ہو جائے گا کہ صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی۔

یہاں پر صرف جرمنی کا ذکر کروں گا کہ حکومت اس وبا سے اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے کس طرح اور کس ترتیب سے اور کیسی کوششیں کر رہی ہے۔

فی ہزار کرونا کیسز میں ہلاکتوں کی تعداد اس وقت دنیا میں سب سے کم جرمنی کی ہے گو کہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ایک ماہ پہلے چار مارچ 2020 کو جرمنی میں کرونا کے مریضوں کی تعداد صرف 200 کے لگ بھگ تھی لیکن اس وقت بھی جرمنی دیوانوں کی طرح لوگوں کا ٹیسٹ کر رہا تھا کہ کہیں یہ کنٹرول سے باہر نہ ہو جائے۔ حکومت کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ وہ چین کی طرح سے اس تعداد کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے کیونکہ جرمنی کے ذرائع نقل و حمل اور سسٹم کا آپس میں اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کہیں دوسرے ملک میں ہو۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جس ترتیب سے جرمنی نے مختلف عوامل پر کام کیا وہ کچھ اس طرح ہیں۔

خوراک اور ضروریات زندگی کی فراہمی:

پانچ مارچ 2020 کو جرمنی کے جس صوبے میں کرونا کے سب سے زیادہ مریض تھے، اس صوبہ کی ہر سپر مارکیٹ سے آٹا، دال، چینی وغیرہ اور ٹن میں محفوظ کھانے پینے کی اشیا ایک دم سے غائب ہوگئیں یا غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ اس وقت زور سینیٹایزر پر نہیں تھا کہ دنیا کو ٹھیک سے پھیلاؤ کا پتہ نہیں تھا۔

یہاں یہ یاد رہے کہ جرمنی کھانے پینے کی اجناس کا ستر فیصد امپورٹ کرتا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جرمنی میں کھانے پینے کی اشیاء کو امپورٹ کرنا سستا پڑتا ہے اور خود سے حصول اور پراسیسنگ کرنا کافی مہنگا ہے۔

جرمنی میں پچاس فیصد سے زیادہ دہ پھل درختوں پر یا زمین پر گر گل سڑ جاتے ہیں اور وہ آئندہ کے لئے کھاد بن جاتے ہیں۔ جرمنی کو نیوزی لینڈ جتنی دوری سے سیب کا درآمد کرنا سستا پڑتا ہے اور اپنے ملک میں درختوں سے اپنی مارکیٹ میں لانے میں مہنگا۔ اندازہ کریں کہ اس سپلائی چین کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے کہ جہاں سب کچھ امپورٹ کرنا ہے اور جہاں سے ان کو امپورٹ کرنا ہے وہاں پر خود کرونا پھیل رہا ہے۔ اور کسی چیز کی فراہمی کے تعطل کے بعد متبادل کا موجود رہنا، یہ سب آسان نہیں ہے۔

ان اجناس کی فراہمی کو یقینی بنانا انتہائی لازم تھا کہ آبادی میں افراتفری پھیلنے کی صورت میں نہ وبا کنٹرول ہوتی، نہ انسان اور نہ ہی اموات۔ اس وجہ سے یہاں پر سپلائی چین مینجمنٹ کو دس مرتبہ پرکھا گیا اور لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ غذا کی کمی کسی صورت نہیں ہونے پائے گی اور اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

حکومت یہ ساری گارنٹی اس پر دے رہی ہے جو سب کچھ پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے۔ یہاں تک کِہ دکانوں کو اتوار کے روز بھی کھولنے کی مکمل اجازت دے دی گئی۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ کرونا کے ٹیسٹ بھی پوری شدومد سے جاری تھے اور شماری اعداد کے تجزیے پر بہت زیادہ کام ہو رہا تھا۔ یہ خیال رہے کہ مریضوں کی تعداد چند ہزار ہونے سے پہلے شماریات پر کوئی بھی تخمینہ تجزیہ تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ کرونا سے پہلی موت جرمنی میں اس جزوی افراتفری سے چار روز کے بعد ہوئی تھی یعنی 10 مارچ 2020 کو لیکن جرمنی برے سے برے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو مسلسل تیار کر رہا تھا۔

آج بھی میرے بہت زیادہ دانشور دوست مجھے فون کر کے پوچھتے ہیں کہ جرمنی میں کوئی ایسی "دوا” ضرور ہے کہ جس کو استعمال کرکے جرمنی اپنی اموات کو روکے ہوئے ہیں- میں نے ان سب کو یہی بتایا کہ ایسا کچھ نہیں- جرمنی کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی نہیں ہے اور وہی سب کچھ ہے، جو سب کے پاس ہے- لیکن بلاامتیاز سب کے لئے ہے۔

یہاں ایک چیز کا فرق بہت زیادہ محسوس کرنے کے لیے ہے کہ یہاں پر لوگ بہت سنجیدہ ہیں- جنگوں کو دیکھ چکے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ ایسے معاملات کو کیسے مل کر اور اجتمائی سطح پر حل کرنا ہے- دوسری بات جرمنی کا مینجر انتہا سے زیادہ قابل ہونے کے باوجود چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے اور سوچ کے اعتبار سے اس میں کوئی بڑا پن نہیں ہوتا –

اسی وجہ سے یہاں کے ماتحت افراد کے اندر ٹیم ورک کا ایک بہت اچھا جذبہ ہوتا ہے اور وہ اپنے مینیجر کے کہے بغیر بھی بہت سارا کام ٹیم میں کرتے ہیں۔ آج جرمنی میں ایک لاکھ سے زیادہ کرونا کے کیس سامنے آچکے ہیں لیکن غذائی اجناس میں سے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہونے پائی، گو کہ تازہ اشیاء کی قیمت دو سے تین گنا ہو گئی ہے۔ (باقی اگلی قسط میں)

صاحب تحریر کا تعارف:

دہسار ملک اپنے بقول نام حادثاتی ہے اور سوشل میڈیا پر مزید بدنامی کے ڈر سے اصل نام سے اجتناب کرتے ہیں۔ گزشتہ چوتھائی صدی سے زیادہ جرمنی میں مقیم ہیں۔ لاہور سے الیکٹریکل انجینرنگ اور تین سال سرکاری نوکری میں چار شو کاز نوٹس وصول کرنے کے بعد، فالتو تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔ جرمنی سے عشق ہو گیا اور انہی کے ہو گئے۔ بچوں کا پیٹ چپ ڈیزائننگ سے پالتے ہیں اور اپنی روٹیاں دوستوں کی محفل میں خواہ مخواہ کا شور ڈال کر توڑتے ہیں۔ زبان درازی و بدتمیزی سے احباب نالاں ہو جائیں تو، قلم کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پڑھتے کم ہیں اور لکھتے زیادہ۔ مبالغہ ناپ تول کر کرتے ہیں اور پطرس بخاری کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ہر کسی کی ہاں میں اپنی ناں ضرور ملاتے ہیں اور ہر رنگ میں بھنگ۔ بسیار خوری کی وجہ سے پکانے کا شوق ضرورت سے زیادہ ہے اور مقامات آہ و فغاں کی تلاش میں اپنے آپ کو سیاح کہلوانے پر بضد ہیں۔ صنف نازک سے گفتگو کرتے وقت گھڑی دیکھتے ہیں نہ اوقات۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے