جرمنی میں وائرس اور وینٹیلیٹرز
Reading Time: 8 minutesدہسار ملک ۔ جرمنی
(دوسری قسط)
کرونا یا جنگ عظیم سوم بپا ہے؟
جرمنی میں غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی طلب کے مطابق رسد کو یقینی بنانے کے بعد حکومت نے کچھ اگلے اقدامات کو دیکھنا تھا۔
وبا تو ملک میں آ چکی تھی اور ہولے ہولے پھوٹ رہی تھی لیکن حالات کہیں سے قابو سے باہر جاتے نظر نہیں آرہے تھے پھر بھی حکومت برے سے برے وقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا کام صحت کے نظام اور صحت کے انفراسٹرکچر کا جائزہ لینا تھا۔ یہاں میں ایک بات واضح کر دوں کہ جرمنی میں مریض نمبر0 کوئی ایک نہیں ہے بلکہ کئی ہیں۔ سب سے پہلا کرونا کا مریض تو شاید چائنا کے شہر ووہان سے ہی آیا تھا لیکن جرمنی کی سرحدیں نو ممالک سے ملتی ہیں، جن میں سے صرف سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ہی جرمنی کے 67 بارڈر کراسنگ ہیں جبکہ ایک ملک سے دوسرے ملک آنے جانے کے لیے پگڈنڈیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔
نو ملکوں سے جرمنی میں آنا جانا کئی ہزار راستوں سے ہوسکتا ہے اور جرمنی میں روزانہ کئی لاکھ افراد نوکری کے لیے وہاں سے آتے جاتے ہیں، شاپنگ کرنے والوں کا شمار اس کے علاوہ ہے، ٹورسٹ تو شاید کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں 10 سے زیادہ "بڑے” انٹرنیشنل ائیرپورٹ ہیں جن میں سے ہر ایک پر انٹرنیشنل فلائیٹس کی تعداد کئی سو ہے۔ سیاحت کا جرمنوں کو اتنا چسکا ہے کہ تقریبا ہر وقت ایک فیصد آبادی سیاحت کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتی ہے یعنی جرمنی کہیں سے بھی اپنا کوئی سرا پکڑنا چاہے تو وہ پکڑائی نہیں دے گا۔
ایسے میں جرمنی کو مریض نمبر 0 محدود کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں تھا۔ کرونا جیسا موذی دشمن سے روایتی جنک نہیں ہو سکتی، جو کہ انسانوں کو اپنی ڈھال بنائے جگہ جگہ موجود ہے اور نظر اس وقت آتا ہے، جب وہ کئی اور انسانوں کو ڈھال بنا چکا ہوتا ہے۔ دشمن سے لڑنا ہر ملک کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا، سب کو اپنے اپنے وسائل اور مسائل کو سمجھتے ہوئے اس سے لڑنا تھا (ہے)۔ اور یہاں پر ہی ملکوں کی حکومت اور اجتماعی دانش کا امتحان ہوتا ہے۔
جرمنی میں صحت کے دو متوازی نظام ہیں، جس کو انسان "پبلک پرائیوٹ” اور "پرائیوٹ پرائیوٹ” پارٹنرشپ کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔ 90 فیصد افراد کے پاس اس پبلک ہیلتھ انشورنس ہے اور ان میں سے اکثریت کے پاس کوئی اور چارہ نہیں کیوںکہ جرمنی میں 56 ہزار یورو سالانہ سے کم آمدنی والے کو ہر صورت میں پبلک انشورنس لینی پڑتی ہے جن 10 فیصد افراد کے پاس پرائیویٹ انشورنس ہے ان کو بھی اس کا کوئی بہت زیادہ خاص فائدہ نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ فائدہ ڈاکٹر کی جلدی اپوائنٹمنٹ اور ہسپتال میں ڈبل یا ٹرپل بیڈ والے کمرے کی نسبت سنگل بیڈ والا کمرہ ملنا ہے۔ علاج کی سہولت بلاتخصیص سب کو ایک جیسی ملیں گی اور وہاں پر کوئی وی آئی پی نہیں ہوگا۔ یہاں ایسا ممکن نہیں کہ ایک وینٹیلیٹر ہو اور وہ کسی امیر آدمی کو مل جائے آئے اور غریب کو نہ مل سکے۔
میں نے پاکستان میں آج تک کسی غریب کو وینٹیلیٹر پر نہیں دیکھا چاہے وہ سرکاری ہسپتال میں کیوں نہ ہو، غریب کو اس سے کہیں پہلے مرنے کے لئے گھر بھیج دیا گیا ہوتا ہے تاکہ سرکاری نظام کو ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جرمنی میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تمام ادارے، ہسپتال، ڈاکٹر اور دوسرے لوازمات سب کے سب پرائیویٹ ہیں۔ چاہے وہ گورنمنٹ کی تحویل میں کیوں نہ چل رہے ہوں، کسی کو بھی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنا علاج فراہم کرنا ہے کہ جس کا انشورنس کو بل دیا جاسکے، وہ طے ہے اور ہر سال اس میں وسائل کے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جس کی پبلک انشورنس سب سے کم ہوتی ہے، اس کو اکثر زیادہ فائدے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ باقی ماندہ تنخواہ سے کچھ پرائیویٹ طرح کا علاج ادا نہیں کر سکتا۔ ہیلتھ انشورنس تناسب کے لئے لازم ہیں چاہے وہ کوئی کام نہ کر رہا ہو اس کے لیے نظام طے ہے۔
اس وبا کو دیکھتے ہوئے نظام صحت کے انفراسٹرکچر کا جائزہ لینا:
باقی دنیا کی طرح جرمنی میں بھی تقریبا 20 سے 30 فیصد مریض وہ ہوتے ہیں، جو اپنا علاج مؤخر کرسکتے ہیں، یعنی ایک آپریشن جو کروانا ہے اس کو چھ مہینے سال ٹالا جاسکتا ہے، باقی مریض تو بہرحال آنے ہی آنے ہیں۔ اس میں یہ دیکھنا کہ نظام صحت جو کہ پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے، اس کے پاس مستقبل کے حوالے سے کتنی گنجائش ہے اور یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں جرمنی دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ بہتر تھا اور مزید بہتر بن سکتا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنے اصل موضوع پر بات کروں میں یہاں دو واقعاتی شہادتیں بیان کرتا چلوں جن کا شاید مضمون سے گہرا تعلق ہو سکتا ہے۔
امریکہ کی ریاست نیویارک میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے بجلی کا ایک بریک ڈاؤن آیا، جس کو بحال کرنے میں جگہ کی مناسبت سے چھ سے 72 گھنٹے لگے اور ایک تخمینے کے اعتبار سے کوئی سو ارب ڈالر کا مجموعی نقصان بھی ہوا۔ ریاست کے بجلی کا نیٹ ورک سینکڑوں بجلی بنانے کے کارخانوں سے جڑا تھا اور سارے ہی تقریباً اپنی نوے سے پچانوے فیصد پیداوار نیٹ میں ڈال رہے تھے، کسی ایک بڑے بجلی گھر میں خرابی کی وجہ سے اس کا تعلق نیٹ سے ٹوٹ گیا۔ ایسے میں طلب کو پورا کرنے کے لیے، دوسرے کارخانے چند سیکنڈ سے چند منٹ کے اندر اندر خودکار نظام کے تحت نیٹ کے اندر اپنا اپنا حصہ بڑھا دیتے ہیں۔ اس دوران لوڈ زیادہ بڑھنے کی وجہ سے مزید دو کارخانے اپنی مشینری بچاتے بچاتے نیٹ سے جدا ہو گئے اور دیکھتے دیکھتے کبھی نہ سونے والا شہر اور ریاست اندھیرے میں ڈوب گئے۔
ہمیں پاکستان میں تو خیر اس کی بہت زیادہ عادت ہو چکی ہے لیکن وہاں کا اندازہ لگائیں کہ جہاں نظام پر اس قدر بھروسہ ہوتا ہے کہ غسل خانوں میں بالٹی نامی ایمرجنسی کا بھی کوئی تصور نہیں۔ بجلی بند کرنا تو دور کی بات، پانی دو گھنٹے بند کرنے کے لیے بھی ہفتہ پہلے نوٹس دیا جاتا ہے۔
واقعہ امریکہ میں ہوا لیکن بحث جرمنی میں چھڑ گئی کہ ایسا واقعہ جرمنی میں نہ ہو اور اس کی کیا ضمانت ہے، کئی روز کی جمع تفریق اور غور و فکر کے بعد بتایا گیا کہ جرمنی میں ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے کہ جرمنی میں قانونی طور پر جس بجلی کے کارخانے کو ستر یونٹ بجلی بیچنا مقصود ہو، اسے اپنی سو کی صلاحیت دکھانی پڑتی ہے یعنی تیس فیصد اضافی صلاحیت ہمیشہ برے وقت کے لیے محفوظ رکھی جاتی ہے۔ اس اضافی تیس فیصد اسٹینڈ بائی پر جو لاگت آتی ہے اسے تمام صارف مل کر برداشت کرتے ہیں جبکہ امریکہ میں سیاست حد سے زیادہ منافع والے رجحان کی وجہ سے ایسی اضافی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے، باقی معاملات میں اس اضافی صلاحیت پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔
ویسے تو جنگ عظیم دوم کے بعد اموات کسی کے حصے میں کم نہیں آئیں ، لیکن جرمنی کے اس وقت بھی بہترین انفراسٹرکچر کی تباہی کا تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا – آج بھی برلن میں چند ہی گھر یا عمارتیں ہی ہیں جو اس جنگ میں غازی قرار پائیں اور جرمن آثار قدیمہ میں شامل ہیں – جنگ کے خاتمے کے بعد ہم آج اسے جس قدر چاہے مثالی جذبہ کہہ لیں، لیکن وہ سب کام جن افراد نے کیا کوئی ان سے پوچھ کر تو دیکھے کہ وہ کیا تھا – بارہ گھنٹے کی مسلسل بیگار اور پینے کو آلو کی یخنی اور کئی سال مسلسل – تاریخ کی بدترین غلامی بھی ان کی خود غلامی سے بہتر تھی – ہر فرد نے اس ریٹارڈڈ گروتھ کو اپنے گھر میں دیکھا – مزید ایک نسل کی جسامت اور قد کاٹھ کو آج بھی دیکھ واضح پتہ چل جاتا ہے کہ ان کا تعلق کس نسل سے ہے – جنگ سمیت بیس سال کے ان المیوں نے جرمن کی "خبط عظمت اور نسل پرستی” والی سوچ کو ہمیشہ کے لیے خود احتسابی کے مسلسل عمل میں تبدیل کر دیا
جنگ کے پینسٹھ سال بعد اور آج سے دس سال پہلے، پہلی مرتبہ جرمن اکثریتی سروے نے بتایا کہ اب ایک اوسط جرمن اپنی اقتصادی حالت کو مستحکم سمجھتا ہے اور خرچ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے – ورنہ اس وقت تک ایک اوسط جرمن اپنی ہر چیز کو نہ صرف سنبھال کر رکھتا رہا، بلکہ انجانے برے وقتوں کے لیے مسلسل اپنے مالی اور دیگر وسائل ایک طرف کنارے لگاتا رہا۔
اسی سوچ کی جھلک ان کی سیاست میں بھی مسلسل رہی – جرمنی نے آج بھی اپنا اکثریتی سونا اسی ڈر کی وجہ سے امریکہ کے پاس رکھا ہوا ہے، جو دو سے تین ہزار ٹن کے درمیان ہے غرض کہ صحت سمیت اپنی تمام تر ضروریات میں ہمیشہ خاطر خواہ "اضافی صلاحیت” کو ملحوظ خاطر رکھا ، جو کہ سادہ کاروباری اصولوں سے متصادم رہا۔
صحت کے مسلسل بہتر نظام کی وجہ سے امریکہ اور مغرب تمام ممالک عملی طور پر بھول چکے تھے کہ ان کو دوبارہ ایسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جرمنوں کو ان کی پہلے والی صورت احوال کے لیے، ان کی سیاست نے پورے 65 سال رسد میں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی، چاہے اس کے لیے ان کو کتنا زیادہ کام کیوں نہ کرنا پڑے اور کتنے زیادہ ٹیکس کیوں نہ لگانے پڑیں۔
جرمنی میں اس وقت کی صحت کی اضافی سہولتیں، یعنی جن پر عام حالات میں کوئی بوجھ نہیں ہوتا اور وہ استعمال میں نہیں ہوتی باقی دنیا کے ممالک سے بہت زیادہ ہیں۔ صرف اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ جرمنی میں 8 کروڑ آبادی کے لئے 25000 وینٹیلیٹر جبکہ اٹلی میں 6 کروڑ آبادی کے لئے صرف 4000 وینٹیلیٹر تھے۔ جرمنی کسی بھی وبا سے نمٹنے کے لیے پوری طرح سے لیس تھا اور حفظ ماتقدم کے طور پر آئندہ چند ہفتوں میں جرمنی میں وینٹیلیٹر کی تعداد دو گنا ہو جائے گی- اس کے علاوہ صرف صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے عملہ کو محفوظ بنانا نہیں تھا، بلکہ اس کا بھی تدارک کرنا تھا کہ کرونا کا ایک مریض ممکنہ طور پر پر ہسپتال میں ہی دوسرے مریضوں میں یہ بیماری پھیلا سکتا ہے- اس لیے ہسپتالوں کو اور کلینکس کو محفوظ بنانا سب سے زیادہ ضروری تھا۔
یاد رہے کہ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جہاں کرونا کے مریضوں کی تعداد یاد ابھی 1000 بھی نہیں پہنچی، مریضوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوئی نیا ہسپتال نہیں بن رہا- کیوںکہ پہلے سے ہی جو ہسپتال ہیں ان کو اچھے طریقے سے مینیج کر کے کے کام کیا جا سکتا ہے، صرف دیکھنا یہ ہے کہ ان کی صلاحیتیں کم نہ پڑنے پائیں اور اس سے متعلق عوام میں آگاہی پھیلانا تھا، تاکہ ہر کوئی اپنی کھانسی یا کسی اور کسی معمولی شکایت کو لے کر بھاگم بھاگ ہسپتال کا یا ڈاکٹر کا رخ نہ کرے۔ جرمنی میں چلنے والے براؤزر پر پھر پاپ اپ آنا شروع ہوگئے کہ عوام نہ چاہتے ہوئے بھی آگاہی حاصل کریں اور سمجھیں کہ ایسی کسی صورت حال میں کیا کرنا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے نظام صحت پر بوجھ پڑے گا اور ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف کی صلاحیتیں ماند پڑ جائیں گی، جیسا کے اٹلی اور سپین میں ہوچکا ہے۔
باقی آئندہ