کالم

’تبدیلی‘ کا کھیل جاری ہے

مئی 3, 2020 3 min

’تبدیلی‘ کا کھیل جاری ہے

Reading Time: 3 minutes

رضوان عبدالرحمان عبداللہ

تحریک انصاف کی حکومت کے 20 مہینے مکمل ہونے کو ہیں مگر روز اول سے حکومتی ٹیم میں تبدیلیوں کے نام پر کھیلے جانے والا میوزیکل چیئر کا کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کھیل کے ضوابط تبدیلی کے بعد کچھ یوں متعین کئے گئے ہیں کہ میوزک بند ہونے کے باوجود کرسی پر قبضہ جمانے والے شخص کو بغیر وجہ بتائے باہر کا راستہ ناپنا پڑتا ہے۔ یہ بھونڈا اصول کھیل میں حصہ لینے والے کابینہ کے بھاری بھر کم پہلوان، ایتھلیٹ بیوروکریٹس اور جمناسٹ ٹیکنو کریٹس سب پر یکساں نافذ العمل ہیں۔


اگر ہم جناب شبلی فراز اور عاصم باجوہ کو سونپے جانے والے وزارت اطلاعات و نشریات کے قلمدان پر بات کریں، تو دیکھنے میں تو یہ ہی نظر آتا ہے کہ شبلی فراز کے ہاتھ میں تو صرف ’قلم‘ تھمایا گیا ہے اصل میں وزارت تو باجوہ صاحب کو ’دان‘ ہوئی ہے۔ اس عہدے پر دونوں ’نو وارد‘ شخصیات ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سے رکھی جانے والی توقعات بھی انواع قسم کی ہیں۔ ِ

مخالفین، دھیمے لب و لہجے کے مالک شبلی صاحب سے جتنی چھوٹ کی توقع رکھتے ہیں، ریٹائرڈ جنرل صاحب سے اتنی ہی کاری ضرب لگنے کا خدشہ محسوس کرتے ہیں۔ حامیوں کی نظر میں بھی شبلی فراز کی شائستگی بلاشبہ خان صاحب کے ایحنڈے کی تشہیر میں ایک رکاوٹ کا کام کرے گی، ’مشن تبدیلی‘ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے باجوہ صاحب کا گھات لگا کر دشمنوں کو ’پار‘ لگانے والا نسخہ ہی کارآمد ثابت ہو سکے گا۔


اگر طاقتور معاون خصوصی کی وزارت اطلاعات و نشریات کو شرف بخشنے کے اسباب پر بات کریں تو یہ قیاس آرائی ہر گز درست نہیں کہ موصوف کی آمد کا مقصد میڈیا کو لگام ڈالنا ہے۔ میڈیا کا بے مہار گھوڑا تو اپنی رفتار کی ہی تاب نہ لاتا ہوا ٹانگیں توڑوا چکا ہے، طبیب کی عدم دلچسپی اور کچھ دیگر وجوہات کے باعث اب یہ ’چوپایہ‘ بند آنکھوں کے ساتھ آخری سفر کا منتظر ہے۔ جو چند ایک ’خچر‘ اس گھوڑے پر چڑھ کر، ابھی بھی دوڑ میں شمولیت کے متمنی ہیں، ان کو زمینی پر گونجتی صداوں پر بھی کان دھرنے چاہئیں، جو ’جینے دو‘ سے ’جینا ہے‘ میں بدل چکی ہیں۔
دوسرا مشہور تُکہ جس کے مطابق یہ تعنیاتی سیاسی مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے کی غرض سے کی گئی ہے تو اس میں بھی دم نہیں، کیونکہ اس ناتواں اپوزیشن پر باجوہ صاحب جیسے قیمتی اثاثے کو ضائع کرنا تو سراسر باجوہ صاحب کی توہین ہے۔ اپوزیشن کی بانگوں کو بند کے لیے تو ’اقبال‘ کا نیب ہی کافی ہے ۔ جو چند ایک ’ناسمجھیے‘ اس زعم میں ہیں کہ وہ صاحب مابدولت کو ان کے نئے لباس پر پڑی شکنوں کی وجہ سے آڑے ہاتھ لے سکیں گے تو ان کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ ان کا یہ نیا لباس اب بھی ان کے پرانے ادارے سے ہی پریس ہو کر آتا ہے۔


باجوہ صاحب کی نئی ذمہ داری کی گتھی کو مسئلہ کشمیر سے سلجھانے والوں کو بھی سمجھنا جاہئیے کہ اگر حکومت کی ایسی نیت ہوتی تو زیادہ بہتر نتائج کے لیے ان کی تعیناتی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے طور پر کی جا سکتی تھی۔
جن چند ایک لوگوں کی نظر میں سویلین عہدے کے لیے ریٹائرڈ فوجی جنرل کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت اور ادارے ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اصل میں یہی وہ بد خواہ ہیں جو جمہوریت کی ٹرین کو پٹڑی سے اترتے دیکھ کر مزے لینا چاہتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ حادثے سے بچنے کے لیے ریل کو پٹری پر چلتا رکھیں جس کے لیے انہیں اپنے خیالات کی تصحیح کچھ اس طرح سے کرنا ہو گی کہ ’حکومت ادارے کے پیچھے کھڑی ہے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے