کالم

معیشت، کلچر اور اسحاق ڈار

مئی 11, 2020 4 min

معیشت، کلچر اور اسحاق ڈار

Reading Time: 4 minutes

معیشت کا کلچر سے گہرا تعلق ہوتا ہے، ہم جب بزنس ایڈمنسٹریشن میں مارکیٹنگ پڑھاتے ہیں تو اس میں بھی کلچر کا ٹاپک پڑھاتے ہیں اور اسی طرح بزنس کمیونیکیشن میں بھی کلچر پڑھاتے ہیں۔
کلچر کو نہ سمجھنے کی بہت سی قباحتیں ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال میکڈونلڈز کی ہے جس نے بھارت میں جب اپنا پہلا ریسٹورانٹ کھولا تو امریکی کلچر کے عین مطابق بیف برگر کو اپنی پرائم پراڈکٹ کے طور پر مارکیٹ کرنے کی کوشش کی، بنا یہ جانے کہ ہندوؤں کی گاؤ ماتا سے گہری محبت ہے اور ان کا پہلا ریسٹورانٹ جلا دیا گیا۔

اس ساری تمہید کا ایک مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار پاکستان کے متنازع ترین وزیر خزانہ رہے ہیں، متنازع اس لیے کہ ایک طرف تو ان کے ادوار میں اکانومی کے اعشاریے بہتر ہوئے اور دوسری طرف ایک طاقتور ادارے کے سربراہ نے ایڈیٹرز کو بلوا کر ان کی ہجو کی اور انہیں معیشت کو خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔

اسحاق ڈار نے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمی میں بھی کچھ دیر کام کیا۔
اسحاق ڈار پر جو بڑے بڑے الزامات ہیں ان میں سے ایک ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر کم رکھنے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو بڑھوتری نہ دے سکنے کا ہے۔

انڈسٹری کو بڑھوتری نہ دے سکنے کی ایک رخصت تو بہرحال ان کے پاس تھی ہی کہ ان کے دور میں انرجی کرائسس نہایت سنگین تھا، گیس سی این جی کی نذر ہوچکی تھی اور بجلی اپنی طلب سے ایک چوتھائی دستیاب تھی اور صاف ظاہر ہے کہ انڈسٹری ان دونوں چیزوں کی عدم موجودگی میں آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔

یہ ایک اعتبار سے خوش قسمت بھی رہے کہ ان کے دور میں غیرملکی کرنسی کا بہت بڑا بحران درپیش نہیں ہوا کیونکہ زرداری دور کا شروع کیا ہوا سی پیک عمل پذیر ہوچکا تھا اور یوں گاہے بگاہے ان کے چار سالہ دور میں ڈالرز پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کی مد میں آتے رہے،اور اپنے پیش رووُں کے مقابلے میں پیٹرولیم کے بین الاقوامی نرخ بھی کم ملے۔
ایک لحاظ سے بدقسمت بھی رہے کہ ان کے دور کے بالکل آغاز میں ہی اسٹیبلشمنٹ نے طاہرالقادری اور عمران خان کو ان کی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے لیے بلیڈ انٹل ڈیتھ کی سٹریٹیجی بنائی تھی اس لیے ان کے چار سالہ دور میں سیاسی استحکام نام کو نہیں تھا، آج ہم جس معاشی بحران کا شکار ہیں اس کی ایک وجہ دراصل اس چار سالہ دور میں مصنوعی سیاسی بحران بھی تھا، مصنوعی اس لیے کہ ان کی پارٹی کو اسمبلی کے اندر بھرپور حمایت حاصل تھی اور سیاسی عدم استحکام دراصل سڑکوں پر اور ٹی وی کی سکرینوں پر تھا جس نے سرمایہ کار کے اعتماد کو کم کیا اور یوں موافق حالات ہونے کے باوجود کوئی بڑی بیرونی سرمایہ کاری نہ ہوسکی۔

اسحاق ڈار اور موجودہ حکومتی پالیسیوں میں ایک واضح فرق جسے میں باآسانی سمجھ سکتا ہوں وہ یہ رہا کہ اسحاق ڈار یہ جان چکے تھے کہ ٹیکس نا دہندگی یا اپنے حسابات کو حکومت سے چھپا کر رکھنا یہاں کا کلچر ہے اور اس کلچر کو تبدیل کرنا بہت زیادہ آسان کام نہیں ہوگا اور دھیرے دھیرے عوام کو بذریعہ ٹیکنالوجی گھیرا جاسکتا ہے،اور جو کوائف عمران حکومت اپنی ایمنیسٹی میں استعمال کئے وہ اسحاق ڈار کے دور میں ہی ایف بی آر نے اکٹھے کئے تھے اور بجلی کے بلوں سے لیکر جائیداد تک کا ریکارڈ بھی انہی کے دور میں اکٹھا ہوا تھا،اسی طرح بیرون ملک معاہدے جن کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ریکارڈ تک پہنچا جاسکتا تھا بھی ان کے دور میں ہی ہوئے۔

اسحاق ڈار کا اپنے پیشرووُں کی مانند ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہی دارومدار رہا لیکن ان کے دور میں ڈائریکٹ ٹیکس بیس بڑھانے پر بھی کام ہوا۔ ان کا بنیادی اصول زیادہ سے زیادہ معاشی سرگرمی پیدا کرنا اور اس سے ٹیکس بیس بڑھانا تھا،مثال کے طور پر اگر سرگودھا سے ایک ٹرک بجری لے کر لاہور کے ڈی ایچ اے جاتا ہے اور مبلغ چونتیس ہزار روپے کرایہ لیتا ہے جس میں انیس ہزار روپے کا ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور اس انیس ہزار روپے میں سے نو ہزار روپے حکومت کو ٹیکس کی مد میں مل جائیں گے جو کہ وہ ڈیزل پر لے رہی ہوگی،لہذا گھر بنانے والے کو نوٹس دے کر بلوانے کی بجائے اور ٹرانسپورٹر کو سمن کر کے اس سے منافع کا حساب لینے کی بجائے اس معاشی سرگرمی سے پیسہ بنانے کا دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے اور گھر بنانے والا اور ٹرانسپورٹر اپنے منافع سے جو خریداری کرے گا اس پر پھر حکومت مختلف طریقے سے حصہ وصول کر لے،اور یہ چیز پاکستان کے کلچر سے لگا کھاتی تھی،اس لئے معاشی سرگرمی تیز تر ہوئی،ان کی ٹیکس پالیسی کا دوسرا بنیادی نقطہ ٹیکس دہندگان اور سرمایہ کار کو موٹی ویٹ کرنے کے لئے کم از کم خوف کا عنصر استعمال کرنا رہا۔

موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم بنیادی طور پر ایک ٹیکسٹ بک معاشی پالیسی کی حامی نظر آئی اور ان کا پہلا نقطہ یہ تھا کہ پوٹینشل سے کہیں کم ٹیکس جمع ہوتا ہے،اور اس کی وجہ ٹیکس مشینری کا کرپٹ ہونا اور ٹیکس گذاروں کا چور ہونا ہے۔نقطہ نمبر دو یہ تھا کہ ڈاکیومینٹیشن آف اکانومی کے بغیر اس ملک کی گاڑی نہیں چل سکتی اور تیسرا اور سب سے اہم نقطہ یہ رہا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ٹیکس وصول ہوگا ورنہ پیار محبت سے کام نہیں ہوگا۔

وہی ہوا جو اس طرح کی کہانیوں میں ہوتا ہے،یعنی کاروباری طبقہ جو پہلے ہی نئی آنے والی حکومت سے بدگمان تھا اور اس کو ایک تاجر دشمن حکومت سمجھ رہا تھا ایک دم ڈارمینٹ موڈ میں چلا گیا اور اس نے اس اندیشے کے تحت کے یہ حکومت پکڑ دھکڑ کرے گی اپنے انویسٹنینٹ کے پلانز موخر کر دئیے اپنے پیسے کو غیر ملکی کرنسی میں منتقل کیا اور بینکس کے لاکرز میں ڈال دیا،صنعت کاروں کا معاملہ بھی ملتا جلتا رہا کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ موجودہ حکومت نااہل اور ناقابل اعتبار ہے اس لئے کسی بھی وقت پالیسیز بدل ڈالے گی،بیوروکریسی بھی یہی سمجھتی تھی کہ ان کے ہاتھ سے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی،گویا لوگوں نے اس خوف سے کہ ان کے اخراجات ریکارڈ ہوں گے خرچ کرنا کم کردیا،رئیل اسٹیٹ انڈسٹری بھی خوفزدہ ہوگئی کہ ٹائیٹل سے جائیدادوں کو پکڑا جائے گا،کار انڈسٹری بھی اسی لئے برباد ہوگئی کہ جس کے نام ہوگی اسے نوٹس آئے گا اور بلیک میل کیا جائے گا اور یوں اس ملک کی معیشت ریورس گئیر میں چلنا شروع ہوگئی۔

اب ذرا اس مثال سے اسحاق ڈار اور حفیظ شیخ کی پالیسیوں کو سمجھنا اور بھی آسان ہو جائے گا کہ اگر مسٹر زید نے ایک گاڑی خریدی اور وہ ٹیکس دہندہ نہیں ہے تو اسحاق ڈار پالیسی اس سے پہلے گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ زائد وصول کرتی اور پھر رجسٹریشن میں پچاس ہزار زائد ٹیکس صوبے کو ملتا اور یوں کار انڈسٹری سے لوگوں کو رزق ملتا اور حفیظ شیخ پالیسی میں کار انڈسٹری والا اس شخص کو کار بیچ ہی نہیں سکتا جو ٹیکس دہندہ نہیں گویا بانسری بننے کے لئے جو بانس درکار تھا اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے