نیپال اب انڈیا کا نہیں رہا مگر کیوں؟
Reading Time: 7 minutesرشید ودود ۔ انڈیا
ہمارے جتنے پڑوسی ہیں، اس وقت سب ہم سے روٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی تو بات ہی نہ کریں، وہ تو عدو مبین ہے ہی لیکن ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے تمام پڑوسی اب ہمیں شک و شبہے کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ نیپال جیسا پڑوسی جو ہمارے اور چین کے درمیان بفر زون کا کام کرتا تھا، اب وہ بھی ہمیں آنکھ دکھانے لگا ہے، یہ حالات کیوں پیدا ہوئے، اس کا ذمے دار کون ہے، نیپال اور ہندوستان کے تعلقات کس نوعیت کے تھے، دونوں ملکوں کے درمیان فری ویزہ کی سہولت باقی رہے گی یا ختم ہو جائے گی، سُگَولِی معاہدے کی حیثیت کیا ہے، سی اے اے جیسے کالے قانون پر نیپال کا ردعمل کیا ہے، ان سب پر گفتگو کرنے والے کر رہے ہیں، ہم تو بس اپنے تآثرات لکھنے بیٹھے ہیں۔
سرحد کے اُس پار نیپال میں ایک شہر ہے کرشنا نگر، جھنڈا نگر کے نام سے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سرحد کے اِس پار ہندوستان میں بڑھنی نامی قصبہ آباد ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں، آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے بارڈر سیل ہے لیکن عام دنوں میں یہ بارڈر کھلا رہتا ہے، بڑھنی کرشنا نگر کا بارڈر اس قدر آسان ہے کہ اگر بڑھنی میں ایس ایس بی (سشستر سیما بل) کی تعیناتی نہ ہوتی تو اجنبی بارڈر کراس کر کے نیپال میں داخل ہو جاتے تھے اور انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک نئے ملک میں داخل ہو چکے ہیں۔
ابھی 2008 تک نیپال میں راج تنتر تھا، راجہ گیانیندر آخری راجہ تھے، نیپال دنیا میں پہلا اور آخری ہندو راشٹر تھا لیکن 2008 میں راج شاہی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہندو راشٹر کا بھی خاتمہ ہوا اور نیپال میں راج تنتر (شاہی نظام) کے بجائے پرجا تنتر (جمہوریت) آئی اور ملک کو ہندو راشٹر کے بجائے ایک دھرم نرپیکچھ (سیکولر) راشٹر گھوشت کیا گیا، پہلے ایک راجہ تھا، اب راجاؤں کی فوج ظفر موج ہو گئی، راجہ ہندو ہونے کے باوجود متعصب نہیں بلکہ عوام دوست تھا، فریادی کی فریاد سنی جاتی تھی، ایک بار راجہ کی طرف سے سراج العلوم پر بلڈوزر چلانے کا فرمان آ گیا، خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی اپنی بپتا لے کر راج دربار میں پہنچے، ان کی فریاد سنی گئی اور راجہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا، مولانا رحمانی نے مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کے ذریعے نہرو جی تک بھی اپنی بات پہنچائی تھی، نہرو جی نے بھی راجہ سے سفارش کی تھی کہ مدرسہ نہ توڑا جائے، انہیں مولانا رحمانی نے تذکرہء نعمت میں لکھا ہے کہ مندر کے پروہت نے راجہ (نام بھول رہا ہوں) سے شکایت کی کہ جب اذان ہوتی ہے تو ہمارے دیوتا بھاگ جاتے ہیں، راجہ نے فی البدیہ جو جواب دیا، اسے سن کر پروہت کے دیوتا کوچ کر گئے، راجہ نے کہا کہ مہاراج! ایسے دیوتا کی پوجا کیوں کرتے ہیں جو اذان کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ راجہ ہندو ضرور تھے لیکن متعصب نہیں تھے (اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہندو متعصب ہوتا ہے، تعصب ایک آفاقی بیماری ہے جس کے جراثیم ہر قوم کے افراد میں مل جاتے ہیں) اب بھی پہاڑی علاقوں میں کوئی تعصب نہیں جو کچھ ہے وہ ترائی میں ہے، یہ صرف نیپال پر موقوف نہیں ہے، پہاڑ جہاں بھی ہیں، وہاں کے باشندے پہاڑ جیسا ظرف بھی رکھتے ہیں، کشادہ ظرف ہوتے ہیں، تنگ نظر نہیں ہوتے، جو بلندی پہاڑوں کی ہوتی ہے، وہی بلندی پہاڑیوں کے خیالات میں بھی پائی جاتی ہے-
یہاں ہم نیپال کی تاریخ نہیں لکھنے بیٹھے وگرنہ ضرور بتاتے کہ نیپال میں راج تنتر اور پرجا تنتر کی دھارایئں ایک ساتھ بہتی رہی ہیں، جسے راجاؤں نے پنچایت راج کا نام دیا تھا، اسی سہولت کا فائدہ اٹھا کر ایک مسلمان راج تنتر میں بھی وزارت کے عہدے تک پہنچ گیا تھا، یہ مسلمان ان پڑھ تھا لیکن وہبی صلاحیتوں کا مالک تھا، اس مسلمان کو نیپال میں ڈی کمپنی کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا لیکن ممبئی بلاسٹ کے بعد ایجنسیوں نے چھوٹا راجن کو ہندو ڈان کے طور پر متعارف کرایا، دونوں میں جم کر گینگ وار ہوا، اسی گینگ وار کا نشانہ یہ مسلمان بھی بنا، 1998 میں یہ مسلمان کاٹھ مانڈو میں مارا گیا، ایسا لگتا ہے کہ یہ مرڈر صرف گینگ وار کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ سازش بھی تھی، اس لئے کہ قاتل ممبئی جیل میں قید تھا، کہا جاتا ہے کہ چھوٹا راجن کے افراد جیل ہی میں اس کے رابطے میں آئے لیکن پھر جس طرح سے اس کی رہائی ڈرامائی انداز میں ہوئی، وہ بہت کچھ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے، اس مسلمان سے پہلے ایک مسلمان اور مجھے یاد آتا ہے جو نیپالی راجاؤں کے بہت قریب تھا، یہ منان خاں تھے، منان خاں مولانا رحمانی کے چچازاد بھائی تھے۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ دفعتاً راجہ بریندر کا پورا خاندان قتل ہو گیا، قتل کا الزام شہزادے پر آیا لیکن ایجنسیوں کے طریقہء واردات پر نظر رکھنے والے مسکرا کر رہ گئے، یہ حادثہ 2001 میں ہوا، سن اس لئے بتا رہا ہوں کہ تاکہ جان لیں کہ ہندوستان میں اُس وقت بھی فسطائی ہی برسراقتدار تھے، بظاہر کہا گیا کہ شہزادہ عشق کا مارا تھا، سوز عشق سے جاں بلب ہو کر اُس نے اپنے پورے خاندان کیلئے دعائے مغفرت کر دی لیکن 2009 میں مقتول راجہ کے ملٹری سکریٹری جنرل بیبیک شاہ نے ایک دلچسپ کتاب لکھی #مَیلےدیکھےکودربار (راج محل:- جیسا میں نے دیکھا) جنرل نے اپنی اس کتاب میں ایک عجیب و غریب دعوی کیا ہے جس کی تصدیق اب بھی باقی ہے لیکن اس قتل کے فورا بعد جس طرح سے صفائی دی گئی کہ اس قتل میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے، اس بیان نے معاملے کو سلجھانے کے بجائے اور بھی زیادہ الجھا دیا ہے، اس قتل کے بعد راجہ گیانیندر راج سنگھاسن پر بیٹھے لیکن نیپال پر اب جو عفریتی قوتیں حملہ آور ہو چکی تھیں، انہوں نے راجہ کے تخت کو ہلا ڈالا، تاآنکہ 2008 میں تاج بھی اچھال دیا گیا، گیانیندر نے جب راج پاٹ سنبھالا تو اس وقت ماؤ وادی سر اٹھانے لگے تھے، 2005 آتے آتے ماؤ وادی اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ ریاست تک ان کے آگے بے بس ہو چکی تھی، 2006 میں راجہ نے پارلیمنٹ بھنگ کر دی، سارا ادھیکار اپنے ہاتھ میں لے لیا لیکن ایسا کر کے راجہ نے اپنے تابوت میں خود ہی آخری کیل ٹھونک دی، 2008 تک آتے آتے راجہ کو راج پاٹ چھوڑنا پڑا-
اب پھر ماؤ وادیوں کی طرف آتے ہیں، یہ پُشپ کَمَل دَہَل جنہیں ہم پَرچَنڈ کے نام سے جانتے ہیں، یہ ہندوستان مخالف اب ہوئے ہیں وگرنا جے این یو کے بوڑھوں کو ان کی شکل اب بھی یاد ہوگی، مکتی باہنی اور کشمیر میں بعض تنظیموں کے کامیاب تجربے کے بعد ماؤ وادیوں کو بھی اتراکھنڈ میں ٹریننگ دی گئی اور پھر یہیں سے معاملہ خراب ہونا شروع ہوا، ماؤ وادی پہلے عوام کو نہیں چھیڑتے تھے لیکن اب عوام سے بھی چھین جھپٹ شروع ہو گئی، ترائی علاقوں میں چن چن کر مسلم زمینداروں کا قتل کیا گیا، ماؤ وادیوں کا نچلا کیڈر بری طرح سے استعمال ہوا لیکن اس متعصب کیڈر کے تابوت میں آخری کیل مولانا عبدالرؤف رحمانی کے خاندان نے ٹھونکی، مولانا کے گاؤں کُدَر بٹوا پر اس کیڈر نے حملہ کیا، پوری رات گولہ باری ہوتی رہی، اس رات کی روداد جتنی دلچسپ ہے، اتنی ہی ولولہ انگیز بھی ہے، مولانا کے خاندان کے بعض لونڈے جن کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، پوری رات داد شجاعت دیتے رہے، غنیم کو آخری وقت تک روکے رکھا، پو پھٹنے سے پہلے زوردار حملہ ہوا لیکن اس کا مقابلہ بھی ان ناتوانوں نے کیا، رات بہت بھاری تھی، جب صبح ہوئی تو ماؤ وادی بھاگ چکے تھے، ان لوگوں نے مقابلہ تو جم کر کیا لیکن بہت کچھ گنوا بھی دیا، اس رات میں بہادری کے جتنے کارنامے انجام دیئے گئے، اس رات سے پہلے اور اس رات کے بعد سادہ لوحی کی داستان ورق بھی بہت لکھے گئے-
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
2008 میں نیپال میں ہندو راشٹر غروب ہوا اور 2014 میں ایک ہندو ہردے سمراٹ کا اُدَے ہوا، ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے ہوش مندوں کو خدشہ تھا کہ کبھی ہمارے اور نیپال کے تعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں، بفر زون کبھی ٹوٹ بھی سکتا ہے، سرحدی تنازعے نے اس قدر زور پکڑا کہ نیپال نے ایک نئے نقشے کو منظوری دے دی ہے، یہ نقشہ اب قانون بھی بن چکا ہے، نئے نقشے میں لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپال نے اپنے علاقے میں دکھایا ہے، یہ علاقے اتراکھنڈ میں واقع ہیں لیکن یوپی کے جس چھور پر ہم آباد ہیں، وہاں سرحد پر ہندوستان کی تیاری دیکھ کر سمجھ میں آ رہا ہے کہ کانگریسی واقعی بہت دور اندیش تھے، یہ ریلوے کی بڑی لائن، یہ بارڈر کی کنکریٹ سڑک، یہ نہر، بڑھنی میں مٹی کے تیل کا پمپ، یہ سب یوں ہی نہیں ہے لیکن لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ حالات اتنے خراب کیوں ہوئے، اس کا ذمے دار کون ہے، وہ نیپال جو ہندوستان پر نربھر رہتا تھا، وہ اتنا آتم نربھر کیسے ہو گیا کہ ہندوستان ہی کو آنکھ دکھانے لگا؟ 2015 میں نیپال میں زلزلہ آیا، ہندو ہردے سمراٹ کی طرف سے امدادی پیکج کا اعلان ہوا، گودی میڈیا نے ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کر دیا لیکن یہ امدادی پیکج بھی بیس ہزار کروڑ کے اُس پیکج کی طرح تھا، جو بہار کو دینے کیلئے اعلان تو ہوا لیکن بہار کو آج تک نہیں ملا، زلزلے کے بعد نیپال کو دوسرا جھٹکا تب لگا جب نیپال میں آئین بنا، ہندوستان کے ردعمل سے نیپال خاصا مایوس ہوا، پھر مدھیسیوں کو ادھیکار دلانے کے نام پر جس طرح سے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی، اُس نے نیپال کو مزید جھلاہٹ میں مبتلا کر دیا اور یہی وہ وقت ہے جب چین نے دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے نیپال کی مدد کی، نیپال چکنے گھڑے کی طرح پھسل کر چین کی جھولی میں گرتا گیا اور ہم اقتصادی ناکہ بندی میں لگے رہے، 2017 میں ہم نے نیپال پر پھر پریشر بنایا کہ وہ ون بیلٹ اور ون روڈ میں شامل نہ ہو لیکن جس بھونڈے انداز میں پریشرائز کیا گیا، اس نے نیپال کو چین سے مزید قریب کر دیا، اب بگ بردر سوچ رہے ہیں کہ روٹھے ہوئے کو کیسے منایا جائے، کانگریس ہوتی تو منا بھی لیتی اور منوا بھی لیتی لیکن جو آج تک جسودا بین کو نہیں منا سکا، اس سے کیا توقع رکھی جائے؟
پکچر ابھی باقی ہے، روداد ابھی پوری نہیں ہوئی لیکن داستان گو بزعم خود بہت چالاک ہے، اس لیے ایک شعر پڑھ کر محفل ختم کر رہا ہے:
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
داستان گو کو دوسرا مصرع یاد نہیں آ رہا-