متفرق خبریں

ڈیفنس کے ڈوبنے پر عوامی احتجاج کی لہر

ستمبر 1, 2020 5 min

ڈیفنس کے ڈوبنے پر عوامی احتجاج کی لہر

Reading Time: 5 minutes


تحریر: عبدالجبار ناصر


کراچی کے پوش ترین علاقے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) جو کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے زیر انتظام ہے کے رہائشی بلآخر پھٹ پڑے اور پیر کو ڈی ایچ اے اور سی بی سی کے دفاتر کا گھیراؤ کر کے شدید احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں مردو زن اور بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔

عوام ڈی ایچ اے اور سی بی سی انتظامیہ کے خلاف سخت مشتعل تھے ۔ یہ بات درست ہے کہ 27اگست 2020ء کی بارشوں کے بعد ڈی ایچ اے کے بیشتر علاقوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے ، گھروں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ، روڈ تباہ ، 5 دن سے بجلی غائب ،گھریلوں ضرورت کے لئے پانی دستیاب نہیں ،گھروں میں پانی داخل ہونے سے لوگوں کی اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئی ہیں ، عملاً مکین محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی کی انتظامیہ منظر سے غائب ہے جبکہ دوسری جانب شہری کے دیگر علاقوں کی حالت بھی خراب رہی ،مگر صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے کہیں نہ کہیں نظر آئے ۔ ڈی ایچ اے اور سی بی سی ان علاقوں سے مختلف مدات میں رہائشی ٹیکس وصول کرتا ہے۔

ڈی ایچ اے اور سی بی سی انتظامیہ کی غفلت اور لاپراوہی کی وجہ سے علاقے سے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی آفتاب صدیقی اور شہزاد قریشی نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ، جس کے بعد عوام باہر آنے پر مجبور ہوئے ، کیونکہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی عملاً وفاق کے ماتحت ادارے ہیں اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ڈی ایچ اے اور سی بی سی کا علاقہ2013ء سے تحریک انصاف ہوم گرائونڈ رہا ہے ۔

ڈی ایچ اے کا مینڈیٹ !
ڈی ایچ اے کا گزشتہ 8 سال سے مکمل مینڈیٹ تحریک انصاف کے پاس ہے اور کراچی کا یہی واحد علاقہ ہے جس کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتاہے کہ تحریک انصاف کے نمائندے صرف اور صرف ووٹ کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ڈی ایچ اے سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف الرحمان علوی اور سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 113 ثمر علی خان اور پی ایس 112 سے خرم شیر زمان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ۔ پی ایس 113 ڈی ایچ اے اور سی بی سی ، جبکہ پی ایس 112 میں بعض دیگر علاقے بھی شامل تھے۔ عام انتخابات 2018ء میں نئی حلقہ بندی کی وجہ سے حلقوں کے نمبر تبدیل ہوئے ۔

قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 110 اور پی ایس 111 کہلائے ۔ عام انتخابات 2018ء میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 247 سے ڈاکٹر عارف الرحمان علوی اور پی ایس 110 سے خرم شیر زمان اور پی ایس 111سے عمران اسماعیل تحریک انصاف کے ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔ بعد ازاں ڈاکٹر عارف علوی صدر پاکستان منتخب اور عمران اسماعیل گورنر سندھ مقرر ہوئے اور دونوں نشستیں خالی ہوئی ۔ ضمنی انتخاب میں ایک بار پھر ڈی ایچ اے کے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا اور این اے 247 سے آفتاب صدیقی اور پی ایس 111 سے شہزاد قریشی کامیاب ہوئے ۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے ڈی ایچ اے کے چاروں وارڈز سے تحریک انصاف کے کونسلرز کامیاب ہوئے اور کنٹونمنٹ بوڑد کا نائب صدر بھی تحریک انصاف کا ڈی ایچ اے سے ہی بنا ۔ مختصر یہ ہے کہ غالباً ڈی ایچ اے کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 8 سال سے تمام نمائندگی ایک ہی جماعت کے پاس ہے ۔ اس سے قبل کسی کے پاس قومی اسمبلی ہوتی تو کسی جماعت کے پاس صوبائی اسمبلی اور کسی اور کے پاس بلدیات کا شعبہ ہوتا تھا۔

ڈی ایچ اے کے عوام پی ٹی آئی سے مایوس!
ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے ) کے رہائشیوں نے 2013ء سے انتخاب ہو یا احتجاج تحریک انصاف پر ہی اعتماد کیا ، مگر وفاق میں حکومت بننے کے دو سال بعد اب مایوس نظر آرہے ہیں ، بالخصوص حالیہ بارشوں نے تحریک انصاف کو اپنے ہوم گرائونڈ میں بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہاں کے نمائندے رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی اور رکن سندھ اسمبلی شہزاد قریشی سندھ بھر میں اپنی جماعت کے ساتھ سرگرم رہے مگر آج جب ان کے حلقوں کا مسئلہ سامنے آیا تو ایوان صدر سے وزیر اعظم ہائوس تک ، گورنر سندھ عمران اسماعیل سے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی اور پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ تک کوئی ان کے ساتھ نظر نہیں آرہا ہے ۔ منتخب نمائندے بے بس اور شدید مایوس نظر آرہے ہیں ، جس کا واضح ثبوت ان کے جاری بیانات ہیں ۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف اور پارلیمانی لیڈر کو تو شاید ڈی ایچ اے اور سی بی سی پر تنقید کے بعد کسی کی ناراضگی کا خوف ہے اور غالباً اسی طرح کی صورتحال دیگر کے لئے بھی ہے ۔ وفاقی حکومت کو اپنے ہوم گرائونڈ کی فکر ہوتی تو آج عوام سڑکوں پر نہ ہوتی۔

ایوان صدر سے گورنر ہائوس تک نمائندگی مگر !
ڈی ایچ اے سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر عارف الرحمان علوی اس وقت صدر پاکستان اور عمران اسماعیل گورنر سندھ ہیں ،جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی کراچی کا پوش علاقہ ہے اور سندھ سے تعلق رکھنے والے 228 ارکان قومی و صوبائی اور سینٹرز میں سے 150 سے زائد کی رہائش ڈی ایچ اے اور سی بی سی میں ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت دیگر شعبوں کی اہم شخصیات کی رہائش بھی ڈی ایچ اے اور سی بی سی میں ہے ، مگر اس سب کچھ کے باوجود ڈی ایچ اے اور سی بی سی مکمل طور پر لاوارث ہیں ۔ مقامی انتظامیہ کے سامنے بے بس ہیں ہیں ۔ ڈی ایچ اے اور سی بی سی بنیادی طور پر عملاً خود مختار ادارے ہیں اور یہ صوبائی حکومت سمیت کسی بھی ادارے کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔

ڈی ایچ اے کے بحران کی وجہ اور ذمہ دار؟
ڈی ایچ اے کراچی100 فیصد منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کی ہوئی بستی ہے اور یہاں عوام کی جانب سے کسی طرح کے قبضے یا غیر قانونی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں کے برساتی نالوں، پانی قدرتی یا بنائی گئی گذرگاہوں پر قبضہ یا بندشیں خود ڈی ایچ اے کی لگائی ہوئی ہیں۔ جب برساتی پانی کو نکاسی کی جگہ نہیں ملے گی تو یقیناً وہ گھروں اور سڑکوں کو ہی ٹھکانہ بنائے گا اور بربادی تو ہونی ہے۔ کراچی کے باقی علاقوں بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ عوام کی اپنی کمزوریاں بھی ہیں مگر ڈی ایچ اے کے بارے میں عوام مکمل طور پر بری الزمہ ہے۔ آج ڈی ایچ اے کی جو بھی بربادی ہے اس کی تر زمہ داری ڈی ایچ اے اور سی بی سی کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے