سکینڈلز پر کمیشن بنانا لکیر پیٹنا ہے: چیف جسٹس
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے دس دن میں نیپرا ٹربیونل کے ممبران تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا اقدامات پر جاری حکم امتناع بھی خارج کردیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں پٹرول کا بڑا اسکینڈل آیا، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی، پٹرول معاملے پر کمیشن بنانا ایسے ہی ہے جیسے سانپ نکل گیا ہے اور آپ لکیر پیٹ رہے ہیں۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سندھ میں لوڈ شیڈنگ کیس کی سماعت کی۔عدالت نے نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم دیدیا۔
عدالت نے قرار دیا قانون کے تحت نیپرا کو عوامی سماعت کرکے فیصلے کا اختیار ہے، نیپرا قانون کے مطابق کے الیکٹرک کے کراچی میں بجلی سپلائی کے خصوصی اختیار کا فیصلہ کرے،سیکشن 26 کے اختیار کے استعمال پر کوئی عدالت حکم امتناع نہیں دے سکے گی۔عدالت نے نیپرا سے کارروائی پر مبنی رپورٹ بھی طلب کر لی۔
چیف جسٹس نے کے الیکٹرک اور پاور ڈویژن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے پاور ڈویثرن کی جانب سے جس نے جواب جمع کرایا اُسے تو پھانسی دے دینی چاہیے،نوکری سے نکال دینا چاہیے۔چیف جسٹس نے مزید کہا 2015 سے کے الیکٹرک نے ایک روپیہ حکومت کو نہیں دیا،کے الیکٹرک عوام کوبجلی اور حکومت کو پیسے نہیں دیتی،خواہ مخواہ کہا جاتا ہے کراچی معشیت کا 70 فیصد دیتا ہے، کراچی کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں، کراچی میں اربوں روپے جاری ہوتے پر خرچ کچھ نہیں ہوا،کراچی والوں کے بیرون ملک اکاؤنٹ فعال ہوچکے ہیں، کراچی میں مال بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے،پہلے ہی اربوں روپے بیرون ملک جاچکے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کی آخر رٹ کہاں ہے؟4 سال میئر رہنے والے نے ایک نالی تک نہیں بنائی،کراچی پہلے 60 سے ستر فیصد ریونیو دیتا تھا اب اس کے پاس کچھ نہیں ہے،شہر کی دیکھ بھال کا ذمہ حکومت کا ہے،ہمیں علم ہے کہ کراچی کے کرتے دھرتے کچھ نہیں کرینگے،شہریوں کے منہ سے نوالا بھی چھین لیا جاتا ہے،اٹارنی جنرل صاحب کراچی میں حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔جسٹس اعجا ز الااحسن نے کہا کراچی کے شہری اس وقت کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کے الیکٹرک والے کراچی شہر کے ساتھ بہت برا کررہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا پاور ڈویژن کا جواب واپس لیتا ہوں نیا جواب جمع کرائیں گے،کے الیکٹرک کے پاس پیداواری صلاحیت نہیں تو پھر بجلی پیداوار کا خصوصی اختیار ختم ہو جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا آج کے الیکٹرک کے خصوصی اختیار کا معاملہ ختم ہی کر دیتے ہیں۔کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کے الیکٹرک شہر میں 2900میگا واٹ بجلی سپلائی کررہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا جب کے الیکٹرک نے معاہدہ کیا تھا تب بھی شہر کی صورتحال ایسی تھی۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کے الیکٹرک والے اسٹے آرڈر لے کر پانچ سال تک بیٹھے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہم نے جس دن سے نوٹس لیا ہے شہر کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے،شہر سے باقی سارا جوس نکال لیا ہے جو چند قطرے بچے ہیں وہ بھی نکال رہے ہیں، پاور ڈویژن والے لکیر کے فقیر ہیں،جواب تیار کرتے وقت اپنا دماغ تک استعمال نہیں کیا،تمام حکومتی ادرے کے الیکٹرک کی معاونت کے لئے ہیں،پاور ڈویژن کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے،سیکریٹری پاور ڈویژن آپ اپنی سمت درست کریں۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا آپ کے پاس اختیارات ہیں اس کا استعمال کریں۔چیف جسٹس نے کہا اس وقت عوام کے فائدے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے،کراچی کا ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں شہری سکون سے رہ سکیں،حکومت کو بے بس کیا جارہا ہے کیونکہ اس کے پاس اہلیت نہیں،پاور سیکٹر کے پاس کام کرنے کا دم نہیں،ملک میں پیٹرول کا بڑا سکینڈل آیا،ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی،دس روز تک ملک مکمل بند رہا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا پیٹرول کے معاملے پر کمیشن بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کمیشن کا کیا فائدہ جس نے کام کرنا تھا وہ کر گیا۔جسٹس اعجا زالااحسن نے کہا سانپ نکل گیا ہے اور آپ لکیر پیٹ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا حکومتی معاملات سمجھ سے باہر ہیں،کے الیکٹرک کے مسائل حل کرنے کے لئے ون ونڈو آپریشن کیوں نہیں۔مقدمے کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔