پاکستان24 متفرق خبریں

اشتہاری نواز شریف کی اپیل سنی جا سکتی ہے یا نہیں؟ عدالت

ستمبر 10, 2020 4 min

اشتہاری نواز شریف کی اپیل سنی جا سکتی ہے یا نہیں؟ عدالت

Reading Time: 4 minutes

سابق وزیراعظم نواز شریف کی احتساب عدالت سے سزا کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی سماعت سے پہلے عدالت نے اس نکتے پر قانونی دلائل طلب کیے ہیں کہ کیا کسی ایک کیس میں مفرور ملزم کو دوسرے مقدمے میں پیش ہوئے بغیر سنا جا سکتا ہے؟

جمعرات کو ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مفرور ملزم کے عدالت کے سامنے پیش ہوئے بغیر اس کی اپیل سننے کی قانونی پوزیشن پر دلائل دینے کے لیے کہا۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیس سننے سے پہلے سرنڈر کرنا لازمی ہے۔

 

جسٹس عامرفاروق، وکیل خواجہ حارث اور نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے اس حوالے سے مختلف کیسسز کے حوالے دیے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ‘مجھے لگ رہا ہے جہانزیب بھروانہ اچھی تیاری کرکے آئے ہیں۔ ہم نہیں کہہ رہے کہ کسی کو نہیں سن رہے؟ ہم اپیل کو میرٹ پر ہی دیکھیں گے۔’

 

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر کوئی فیصلہ نہیں کر رہے، عدالت یہ دیکھ رہی ہے کہ کیا نواز شریف کی پیشی کے بغیر نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست سنی جاسکتی ہے؟

عدالت کے پوچھنے پر نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے متفرق درخواست دائر کی ہے۔

 

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ اس درخواست کا کیا ایفیکٹ ہوگا؟ کیا نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا؟ اگر اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے تو نواز شریف کی عدالتوں میں زیر التوا درخواستوں پر کیا اثر ہوگا۔

 

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اشتہاری قرار دیئے جانے کا اس عدالتی کارروائی پر اثر نہیں پڑے گا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نوازشریف احتساب عدالت کے اشتہاری ہو چکے ہیں، اشتہاری ملزم کا قانون کے سامنے سرنڈر کرنا ضروری ہے۔

 

خواجہ حارث نے کہا کہ سوال مجھ سے پوچھا جاتا ہے جواب نیب کے پراسیکیوٹر دے دیتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پرویزمشرف کیس میں عدالت قرار دے چکی مفرور کو سرنڈر سے قبل نہیں سنا جاسکتا، قانون کے مطابق اشتہاری ملزم کو قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ضروری ہے۔

 

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا نواز شریف کسی اسپتال میں زیرعلاج ہیں؟ جن ڈاکٹرصاحب کی رپورٹ دی گئی وہ امریکہ میں ہیں۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف کسی اسپتال میں زیرعلاج نہیں۔

 

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ نواز شریف برطانیہ، ڈاکٹر امریکہ میں ہیں، زبانی علاج کیا۔ کیا اشتہاری ہونے کے بعد ہم درخواست گزار کو سن سکتے ہیں؟

وکیل نے بتایا کہ دونوں درخواستوں کو سنی جاسکتی ہیں۔

 

جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ جس ڈاکٹر کا آپ نے سرٹیفیکٹ لگایا ہے وہ امریکہ میں ہے، اور نواز شریف لندن میں۔ پچھلے 7 ماہ میں نوازشریف کسی اسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔

 

وکیل نے کہا کہ نوازشریف کی اپیل کوسنا جائے، اپیل تو مفرور کی بھی سنی جاتی ہے۔

 

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نوازشریف کو پہلے مفرور قرار دیتےہیں پھر اپیل سن لیتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہیں، پنجاب حکومت نواز شریف کی ضمانت مسترد کرچکی، نوازشریف کا کسی اسپتال میں علاج نہیں چل رہا، نوازشریف پاکستان کا سفر کرنے کے لیے فٹ ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے اسی لیے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی۔

 

عدالتی استفسار پر کہ نومبر کے بعد کیا حکومت نے نوازشریف کی صحت سے متعلق جاننے کی کوشش کی ؟ ایڈیشنل اٹارنی نے جواب دیا کہ نہیں، ہم نے معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ اسپتال میں داخل ہی نہیں۔

 

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے پوچھا کہ آپ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کس کو دی تھی ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دی تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ نوازشریف بیرون ملک کب گئے تھے؟ وکیل نے بتایا کہ نوازشریف بیرون ملک علاج کے لئے اکتوبر میں گئے تھے، بیرون ملک جانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں انڈر ٹیکنگ جمع کرائی تھی۔

 

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ وفاقی حکومت نے علاج کے بارے میں ویری فیکیشن نہیں کی؟ 27 فروری کو وفاقی حکومت نے ضمانت میں توسیع نہ کرنے کا کہا۔ وفاقی حکومت نے صحتمند ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا مگر انویسٹیگیشن نہیں کی، غلط یا صحیح مگر وفاقی حکومت کے پاس کلین چٹ تھی۔ وفاقی حکومت نے نواز شریف کی ضمانت ختم ہونے کے بعد واپسی کے لیے کچھ نہیں کیا ؟ نوازشریف 19 نومبر کو بیرون ملک گئے، چار ہفتے کی مدت دسمبر میں ختم ہوئی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ میں واضح لکھا ہے کہ ہائی کمیشن کے نمائندے کے ذریعے صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اور وفاقی حکومت نے اس متعلق کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔؟

نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نوازشریف کا ایک اور کیس میں بھی گرفتاری کے وارنٹ جاری کے جا چکے ہیں۔ جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ہم نہیں بتائیں گے آپ ہی معاونت کر سکتے ہیں۔ 20 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ریفرنس ہیں، آسان کام نہیں۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ احتساب بیورو کا اس حوالے سے ایک آزاد مؤقف ہے، لاہور سے نوازشریف کے ایک اور کیس میں وارنٹ جاری ہوئے۔

جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ نوازشریف کو سرینڈر کرنے کا موقع دیا تھا، ابھی تک نوازشریف کو حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ابھی صرف ایک ایشو عدالت کے سامنے ہے کہ کیا نواز شریف کی درخواست سنی جا سکتی ہے؟ اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں، آپ اس نکتے پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو بطور حوالہ جات جمع کرا دیں۔

خواجہ حارث نے ایک بار پھر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس عدالت کا کوئی بھی حکم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالتوں میں جو مقدمات چل رہے ہیں ان کو متاثر کرے گا، پہلے بھی عدالتی فیصلے موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اشتہاری کی درخواستیں نہیں سنی جا سکتیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خواجہ حارث ایسے وکیل ہیں کہ integrity and dignity personified۔ ہم اگلے منگل کا رکھ لیتے ہیں، خواجہ حارث کو وقت دے دیتے ہیں۔

عدالت نے درخواست کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سرنڈر کیے بغیر نواز شریف کی درخواست پر سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکوٹر سے دلائل دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ایک کیس میں اشتہاری ہونے کے بعد انہیں سنا جا سکتا ہے یا نہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ وقت دیا جائے اگر کوئی قانونی نکات پر معاونت نہ کر سکا تو سرنڈر کے عدالتی حکم پر نظرثانی کی درخواست واپس لے لوں گا۔

خواجہ حارث جن قانونی نکات پر بات کرنا چاہتے ہیں ، وقت دیتے ہیں کر لیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف نے سرنڈر نہیں کیا ہم انہیں کوئی استثنیٰ نہیں دے رہے، صرف قانونی نکات پر دلائل کے لئے خواجہ حارث کو وقت دے رہے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے