موٹروے ریپ کیس کی تفتیش میں پولیس نے کیا کیا؟
Reading Time: 3 minutesلاہور میں موٹر وے پر بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خاتون کو ریپ کرنے والے ملزمان تک پولیس پہنچنے میں تاحال ناکام ہے تاہم اس دوران اس واقعہ کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں جن سے کئی سوالات بھی اٹھے ہیں۔
تفتیش کے لیے وسائل کی کمی
پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے ملزمان کے ڈی این اے کی واردات سے میچ نہ ہونے کی رپورٹ آئی ہے جس پر واردات کی جگہ کے قریب موجود کرول گاؤں کے سینکڑوں نوجوانوں کے ڈی این اے کرانے کے احکامات موصول ہونے کے بعد پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بتایا کہ ان کے پاس ٹیسٹنگ کٹس ختم ہو گئی ہیں۔
ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشرف نے بتایا کہ کٹس خریدنے کے لیے محکمہ خزانہ نے فنڈز جاری نہیں کیے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر محکمہ خزانہ کو فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی جس پر جمعے کو فرانزک سائنس ایجنسی کو پانچ کروڑ 44 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔
حکام کے مطابق وقوعہ سے تین کلومیٹر دور تھانہ گجر پورہ کی چوکی کرول کو جس وقت وائرلیس کنٹرول نے وائرلیس کے ذریعے واردات کی اطلاع دی تو وہاں موجود اہلکار اس لیے حرکت نہ کر سکے کہ ان کے پاس گاڑی نہیں تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس چوکی کے بنائے جانے کے بعد سے متعدد مرتبہ حکام کو پولیس وین فراہم کرنے کی درخواست کی گئی مگر تاحال چوکی کے پاس کوئی سرکاری گاڑی نہیں اس لیے علاقے میں پولیس کا گشت نہیں ہوتا۔
کیس کو خراب کرنے کی کوشش؟
پولیس حکام نے اس واقعہ سے جڑے بعض حقائق میڈیا کے ساتھ شیئر کیے ہیں جبکہ مقدمہ درج کرنے والے مدعی سردار شہزاد اور واردات کی جگہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے ڈولفن پولیس اہلکار کے بیانات میں واضح تضاد کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پولیس حکام نے بتایا ہے کہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے ڈولفن اہلکار پہنچے تھے تاہم مقدمے کے اندراج کے وقت مدعی سردار شہزاد نے غلط بیانی کی اور بتایا کہ انہوں نے خاتون کو جنگل سے سڑک پر لانے میں مدد کی۔
پولیس حکام نے میڈیا کو آف دی ریکارڈ بریفنگ میں بتایا کہ مقدمے کے مدعی سردار شہزاد اپنے دوست جنید کے ساتھ خاتون اور ان کے بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جس کے بعد ان کو پیچھا کر کے پولیس چوکی لے جایا گیا اور ایف آئی آر درج کی گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق مدعی مقدمہ سردار شہزاد نے غلط بیانی کی کہ وہ گوجرانوالہ سے خاتون کی مدد کے لیے پہنچے جبکہ دراصل وہ لاہور سے موٹر وے کے اس مقام پر پہنچے جہاں واردات ہوئی۔
پولیس حکام نے میڈیا کو آف دی ریکارڈ بریف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تاحال یہ معلوم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ متاثرہ خاتون اپنے بچوں کے ساتھ لاہور میں اپنی بہن کے گھر آئی تھیں یا کسی سہیلی کے۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
فوجداری مقدمات کی عدالتوں میں پیروی کرنے وکلا نے مقدمے کی ایف آئی آر اور ڈولفن اہلکار کے بیان کو دیکھنے کے بعد خیال ظاہر کیا ہے کہ واقعات، شواہد، وقوعہ کے بارے میں متضاد بیانات ٹرائل کے وقت کیس کو کمزور کر سکتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی جی موٹر وے کلیم امام کے نیوز چینل پر متاثرہ خاتون کی کال کے بارے میں تفصیلات، ڈولفن اہلکار کی فراہم کردہ تفصیلات اور مدعی مقدمہ کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کی تفصیلات میں وقت اور دورانیے کے حوالے سے واضح تضاد اور فرق ہے۔
متاثرہ خاتون کی گاڑی کی رجسٹریشن
متاثرہ خاتون کے زیراستعمال گاڑی اسلام آباد میں ایک خاتون کے نام پر سال 2019 میں رجسٹرڈ کی گئی۔