پاکستان پاکستان24

’حلف کی پاسداری کی جاتی تو حالات مختلف ہوتے‘

ستمبر 29, 2020 2 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

’حلف کی پاسداری کی جاتی تو حالات مختلف ہوتے‘

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر ملک میں حلف کی پاسداری کی جاتی تو حالات بالکل مختلف ہوتے۔

صحافی جہانزیب عباسی کے مطابق سپریم کورٹ کے رپورٹرز کی ایسوسی ایشن (پاس) کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پاکستان میں اب بھی صحافت آزاد نہیں ہے۔

ماضی قریب میں عہدے سے ہٹائے جانے کے لیے صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس فائز کا کہنا تھا کہ کسی کو ’یکطرفہ خبریں اور سلیکٹڈ پیغام‘ چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں صحافت آزاد نہیں اور رپورٹس کے مطابق آزاد صحافت میں پاکستان نچلے درجے پر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 اور سنہ 2018 میں پاکستان فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 139 نمبر تھا جو 2019 میں 142 نمبر پر پہنچ گیا۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے مقدمے میں دیے گئے اپنے فیصلے کے بعد خبروں میں آئے تھے۔

ان کے فیصلے نے ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کیا تھا۔

فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت دفاع کو ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنے ’حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کی تھی‘۔

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں جسٹس فائز نے پاکستان میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کی گئی تھی جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود سماعت کے لیے مقرر نہیں کی جا سکی۔

رپورٹرز کی حلف برداری کی تقریب میں خطاب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آزاد صحافت جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ آزاد صحافت حکومت کی غلط کاریوں اور کرپشن کو آشکار کرتی ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کے بغیر قوم بھٹک سکتی ہے اور ملک کھو سکتے ہیں‘۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اُنھوں نے بطور وکیل سنہ 1991 میں سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔

جسٹس فائز کے مطابق اس مضمون میں لکھا تھا کہ خبرنامے میں اس وقت کے وزیر داخلہ کے اپوزیشن لیڈر پر الزامات تو دکھائے گئے لیکن اپوزیشن لیڈر کا جواب نہیں دکھایا گیا جو صحافتی اصولوں کے خلاف تھا۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ خؤد پر تنقید کا برا نہیں مناتے۔ ‘میں نے فریڈم آف دی پریس کے نام سے کتاب لکھی تھی اور ملک کے آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔’

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے تمام معاملات میں آئین معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ نے 19 سال قبل آزاد صحافت پر فیصلہ دیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں، اس کا مطلب ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑتے ہیں۔ ‘یہ ضروری ہے کہ ناانصافی اور بدعنوانی کو سامنے لایا جائے۔ٗ

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے