ترقیاتی فنڈز کیس: ’وزیراعظم اپنے سیکرٹری کے پیچھے کیوں چھپ رہے ہیں؟‘
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے کیس میں وزیراعظم کے سیکرٹری کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کر دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہ صرف عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ الیکشن قوانین میں کرپٹ پریکٹسز سے بھی روکا گیا ہے اور یہ انتخابات پر اثرانداز ہونے میں بھی آتا ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم آفس کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ تحریری جواب دیں۔ عدالت نے سیکرٹری فنانس سے بھی دو ٹوک الفاظ میں تحریری جواب طلب کر لیا۔
بدھ کو اٹارنی جنرل نے سماعت کے آغاز پر بتایا کہ سیکرٹری اعظم خان کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا گیا ہے، تحریری جواب میں کہا گیا ہے وزیراعظم قومی دولت کے محافظ ہیں، کسی رکن پارلیمنٹ کو فنڈز نہیں دیے گئے، اگر فنڈز کا اجرا کیا گیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھا گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اراکین کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان نے کہا ہے اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیے گئے،
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ تحریری جواب کیا آپ نے ڈرافٹ کیا یا وزیراعظم کے سیکرٹری نے؟ تحریری جواب لکھی گئی انگریزی سے قابلیت کو جانچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ عدالتی حکم کا دو ٹوک الفاظ میں جواب نہیں دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی جواب خامیوں سے بھرپور ہے، حکومتی جواب میں محفوظ راستہ اختیار کرنے کا تاثر موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ واضح جواب دیں، تحریری جواب میں بتائیں کہ مستقبل میں عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی، وزیراعظم عمران خان ترقیاتی فنڈز کے اجراء بارے خبر پر خاموش کیوں رہے، صبح سے شام تک وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کی بھرمار ہوتی رہتی ہے، اس معاملے پر کیوں خاموشی اختیار کی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اخباری خبروں کی تردید کرنا شروع کر دیں تو پھر اور کوئی کام نہیں ہو سکے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعظم خان سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں، اعظم خان وزیراعظم کی نمائندگی نہیں کر رہے، وزیراعظم عمران خان اپنے سیکرٹری کے پیچھے کیوں چھپ رہے ہیں، ویسے تو صبح سے شام تک پراپیگنڈا کی بھرمار جاری رہتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ایسے نہ کہیں، لچک کا مظاہرہ کریں۔‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو علم ہے میڈیا کتنا آزاد ہے، میں نے عدالتی حکمنامے میں ایک مستند انگریزی اخبار کا حوالہ دیا، وزیراعظم عمران خان کے جواب میں دو ٹوک موقف اختیار نہیں کیا گیا، سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کون ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کی طرف سے جواب جمع کرایا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریری جواب میں بتائیں کہ پانچ سو ملین روپے اراکین کو نہیں دیے، مزید سکیم بھی زیر غور نہیں ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ میری درخواست ہے کہ سیکرٹری خزانہ کا جواب وزیراعظم عمران خان کے دستخط شدہ ہونا چاہیے۔
عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تجویز تسلیم کر لی اور عدالت نے حکم نامہ لکھوایا کہ سیکرٹری خزانہ وزیراعظم عمران خان کے دستخط شدہ رپورٹ جمع کرائیں۔ کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔