کالم

’راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ‘ کی اصل حقیقت یہ ہے

مئی 20, 2021 4 min

’راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ‘ کی اصل حقیقت یہ ہے

Reading Time: 4 minutes

اسے آپ سادگی یا حماقت کی انتہا کہیں کہ ایک ایسا پراجیکٹ جسے حکومت فخریہ پیش کر سکتی تھی۔ اس کے بل بوتے پر راولپنڈی میں اگلے الیکشن میں بہتر کارکردگی کی توقع رکھ سکتی تھی۔ جناب وزیراعظم نے اپنے ہاتھوں اسے متنازع بنا ڈالا ہے۔

میں نے ڈھائی، پونے تین سال میں خان صاحب کے ہاتھوں جو ڈھائی، پونے تین کام اچھے ہوتے دیکھے، ان میں سے ایک یہ پراجیکٹ تھا، اب یہ بھی گیا ہاتھ سے۔ بجا کہ ہم پنڈی والوں کو اس کے خواب 1997 سے دکھائے جا رہے تھے۔ لیکن 2017 تک اس پر زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ ہوا تھا۔

ابتدائی خاکہ جو 2017 میں تیار ہوا، اس میں رنگ بھرنے کا موقع خان صاحب کو ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اچھا، مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتا منصوبہ خان صاحب کی حکومت نے تیار کر لیا تھا، اس پر عملدرآمد کے مراحل کا آغاز ہو چکا تھا۔ اللہ بھلا کرے خان صاحب کا، اسے بھی دولتی جھاڑ دی۔ وہ بھی بالکل فضول میں، پراجیکٹ میں کوئی بڑی خرابی نہیں ہے۔

اپوزیشن کو پوائنٹ سکورنگ کا یہ موقع اللہ کے بعد خان صاحب نے خود دیا ہے۔ عطاء اللہ تارڑ یا مریم اورنگزیب جو کاغذ لہراتے پھر رہے، ان کی بنیاد حکومت کی انکوائری رپورٹ ہے، جبکہ یہ حکومتی رپورٹ بجائے خود جھوٹ کا پلندہ ہے۔

جاوید چوہدری صاحب کا مضمون ملک ریاض کا فرمائشی پروگرام ہے۔ حبیب اکرم صاحب نے البتہ بہت عمدہ لکھا اس معاملے پر۔ اسد علی طور کی وڈیو لیکن ان دونوں کے کالمز پہ بھاری ہے۔ ضرور دیکھیں۔ اور پنڈی کا شہری ہونے کے ناطے جو دو چار باتیں مجھے پتہ ہیں، وہ مجھ سے سن لیجئے۔

ایک تو لمبائی میں پچیس کلومیٹر اضافے والی بات بالکل غلط ہے۔ نون لیگ کے منصوبے میں کنسٹرکشن چالیس، پینتالیس کلومیٹر ضرور تھی، مگر بارہ کلومیٹر موٹر وے اور سات کلومیٹر ترنول والے روڈ کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔ لمبائی تب بھی یہی تھی۔ ہوا یوں کہ این ایچ اے نے موٹر وے کے استعمال پر اعتراضات اٹھائے جو سب ویلیڈ تھے، دوسری طرف سی ڈی اے نے مارگلہ ایوینیو کو اس سے ملانے کی تجویز دے دی۔ جو ایک اور شاندار آئیڈیا ہے۔ تو رنگ روڈ کی لمبائی میں اگر پانچ چھ کلومیٹر اضافہ ہوا بھی، تو وہ ضروری تھا۔ اسد طور نے اپنی وڈیو میں اس کے ثبوت بھی دیے ہیں۔

جب لمبائی بڑھانے والی بات غلط ہے تو اس کی بنیاد پر لاگت بڑھنے والی بات خود ہی غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ لاگت میں پچیس ارب کا اضافہ اس لئے ہوا کہ 2017 میں ڈالر سو کا اور اب ایک سو پچاس کا ہے۔ باقی موٹر وے نکال دینے اور مارگلہ ایوینیو کو رسائی دینے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی سے معمولی سا اضافہ ہوا ہوگا لیکن ان دونوں کاموں کے فوائد اس اضافے سے کہیں زیادہ ہیں۔

تو، مطلب کرپشن کہاں سے آ گئی اس میں؟

رہ گئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے والی بات؟

مجھے ہنسی قرطبہ سٹی کا نام پڑھ کر آئی۔ اللہ بخشے قاضی حسین احمد نے نوے کی دہائی میں اس وقت افتتاح فرمایا تھا، جب رنگ روڈ کسی کے خواب و خیال میں ہی نہیں تھا۔ جو سوسائٹی پچھلے پچیس برس ڈلیور نہ کر پائی اور اگلے پچیس برس بھی جس کی کوکھ ہری ہونے کا کوئی امکان نہیں، اسے بینفشری کہنا لطیفہ ہی ہے۔

کیپیٹل سمارٹ سٹی موٹر وے سے براہ راست رسائی لئے بیٹھی ہے۔ ٹاپ سٹی کشمیر ہائی وے سے۔

بلیو ورلڈ نے اپنی دھانسو قسم کی برانڈنگ اور مارکیٹنگ سے مارکیٹ بنائی ہوئی ہے۔ ورنہ وہ اور بیچارے مویدہ والے زمین کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے۔ نووا سٹی کا افتتاح کرنا خان سرور کے گلے پڑ گیا۔ معاملہ فقط اتنا ہے کہ نووا کے پاس جو نو سو ستر کنال اراضی ہے، اس میں چھ ساڑھے چھ سو کنال ان کی برادری کی جگہ تھی جو ان کے بیٹے نے نووا والوں کو دلوا دی۔ توقیر شاہ کی فیملی زلفی بخاری کی سخت مخالف ہے۔ توقیر شاہ کے کزنز سی ڈی اے سے لڑتے پھرتے، زمینیں دینے کو تیار نہیں کہ بقول ان کے ان کی زمینوں کو زبردستی ماسٹر پلان میں شامل کیا گیا ہے۔ انہیں رنگ روڈ سے کیا لینا دینا؟

اب ان سب کو ظاہر ہے رنگ روڈ سے قربت کا فائدہ ہوا ہے، لیکن آپ رنگ روڈ دس کلومیٹر پیچھے لے جائیں۔ پھر کچھ اور سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچے گا، پھر راجہ بشارت، چوہدری نثار کے نام آئیں گے۔ مطلب یہ کہ روڈ جہاں سے بھی گزرے گی، ملحقہ زمینوں کی ویلیو تو بڑھے گی ہی، اور مقامی جاگیر داروں اور سیاستدانوں کو فائدہ بھی پہنچے گا ہی۔ یہ سب تو مارگلہ ایوینیو میں بھی ہوگا اور کھاریاں موٹر وے میں بھی۔

سابقہ کمشنر راولپنڈی کا معاملہ یہ ہے کہ کیپٹن محمود صاحب سے شیخ رشید کی نہیں بنتی تھی۔ شیخ صاحب، چوہدری نثار کی طرح پنڈی کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے۔ سابقہ کمشنر ان کی خواہشوں پر نہیں چلتے تھے۔ ان کے بھائی کی سوسائٹی مکہ سٹی اس وقت کی ہے جب کیپٹن محمود کہیں جنوبی پنجاب میں ہوا کرتے تھے شاید۔

کہنے کا مقصد یہ کہ ٹوٹل جھوٹی کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بلڈرز اور ٹاؤن ڈویلپرز کو کلین چٹ دینا مقصود نہیں، ان کے سو کام غلط ہوتے ہیں، مگر جو ہیں، آپ ان پر پکڑیں۔ ایسی بوگس کہانیوں سے آپ لاکھوں لوگوں کی اربوں کی انویسٹمنٹ خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

راولپنڈی رنگ روڈ جیسے نان ایشو میں پنجاب حکومت کا وہ آرڈیننس دب گیا ہے، جو صرف دو فیصد جرمانہ لے کر چھ ہزار غیرقانونی سوسائٹیوں کو کلین چٹ دینے کے نیک ارادے پر مبنی ہے۔ کیا اسے دبانا ہی مقصود تھا؟

اعظم خان، شیخ رشید اور شہزاد اکبر، راولپنڈی رنگ روڈ کو متنازعہ بنانے کا سہرا ان تینوں کے سر جاتا ہے۔ وجوہات اپنی اپنی مگر مقصد ایک ہی تھا، اور وہ پورا ہوا۔

یہ تینوں خان صاحب کی آستین کے سانپ ہیں۔ کئی مرتبہ ڈس چکے۔ ان کی وجہ سے خان صاحب نے بہت مرتبہ ایسے فیصلے کئے، جن کا نتیجہ پسپائی اور رسوائی کی صورت برآمد ہوا۔ مگر خان صاحب ایسے سادہ ہیں کہ بطور صابر شاکر، اسی عطار کے لو.ے سے دوا لیتے ہیں۔

ستم ڈھاتے ہیں وہ خواتین و حضرات جو فرماتے کہ "خان ہی آخری آپشن ہے۔”

جن کا آخری آپشن ایسا ہو انہیں اب تک مر جانا چاہئے تھا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے