کالم

اسرائیلی ماں اور پاکستانی ماں

مئی 23, 2021 2 min

اسرائیلی ماں اور پاکستانی ماں

Reading Time: 2 minutes

کچھ عرصہ پہلے ایک تحریر پڑھی تھی۔ تلاش کے باوجود ملی نہیں، ورنہ آپ کے ساتھ شیر کرتا۔
وہ تحریر تو بہت اعلیٰ معیار کی تھی، لیکن میں اس کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔
اسرائیل میں جب کوئی خاتون ماں بنتی ہے تو اس کا پورا خاندان ایک ٹیم کی طرح آنے والے بچے کے استقبال کی تیاری شروع کرتا ہے۔ مقامی طبی عملہ ماں کی دیکھ بھال شروع کرتا ہے۔ ماں کے لیے ڈائیٹ پلان بنتا ہے جس میں یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ روزانہ دودھ، گوشت، پھل اور سبزی کے ساتھ خشک میوہ جات (از قسم اخروٹ، بادام، کاجو وغیرہ) کثرت سے کھائے۔ وہ باقاعدگی سے مقامی ہسپتال میں جاتی ہے جہاں پر ماں بننے والی اور بھی بہت سی خواتین آتی ہیں۔ یہ باقاعدہ کلاس یا ٹریننگ کا منظر ہوتا ہے۔
ماں بننے والی خواتین طبی عملہ کی نگرانی میں اپنے تجربات کا تبادلہ کرتی ہیں۔ ان خواتین سے ریاضی کے سوالات حل کروائے جاتے ہیں۔ پینٹنگ ہوتی ہے اور موسیقی کی محفلیں ہوتی ہیں۔
صہیونیوں کا خیال ہے کہ ماں اگر مثبت سوچ کے ساتھ، اچھے ماحول میں، اچھی خوراک کھاتے ہوئے، علمی کام کرے گی اور خوش رہے گی تو آنے والے بچے کی شخصیت ویسی ہی ہوگی۔
یاد رہے کہ اسرائیل میں ہسپتال پاکستان کے ہسپتالوں کی طرح نہیں ہوتے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ وہاں تین کمروں کے تنگ مکان میں چھ چھ خاندان بھی نہیں رہتے۔ ماں اور باپ کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ آنے والے بچے کی آمد پر اخراجات کتنے ہوں گے۔ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ، ہنسی خوشی آنے والے بچے کا استقبال کرتے ہیں۔
اب ذرا پاکستانی ماں کا جائزہ لیجیے۔
پہلے تو یہ معلوم نہیں کہ اس کی شادی سولہ سال کی عمر میں ہوئی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں۔ یہ بھی نہیں پتا کہ اس کی شادی میں اس کی مرضی شامل ہے کہ نہیں۔ یہ علم بھی نہیں کہ بچے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہوئی ہے کہ نہیں۔ بلکہ ایک بچہ ابھی ڈائپر یا چڈی بدلنے کے قابل نہیں ہوتا کہ دوسرا پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش ایک راز کی بات ہوتی ہے، اس لیے پہلی بار ماں بننے والی خاتون ہر کسی کی مدد بھی نہیں لے سکتی۔ اس کو خوراک پوری نہیں ملتی۔ ذہنی طور پر بھی ٹارچر ہوتی ہے، لڑکا پیدا کرنے کا دباؤ ہوتا ہے، اخراجات بچانے کے لیے اسے میکے بھیجا جا سکتا ہے۔
خاتون کا شوہر بھی بچے کی پیدائش میں پورا حصہ نہیں لیتا۔ یہ کام خاندان کی نانیوں یا پھوپھیوں نے سنبھالا ہوتا ہے۔ جن کے خیال میں مچھلی اور گوشت کھانے سے بچے کو یرقان ہوتا ہے۔
ان نانیوں اور پھوپھیوں کو وہم ہے کہ غسل کرنے یا بار بار ہاتھ دھونے سے بچہ معذوری کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا بے حیائی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
میرے بھائی، اسرائیل سے جنگ ضروری ہے۔ ظلم حد سے بڑھ گیا ہے۔ لیکن یہ جنگ اپنے گھر سے شروع کرنی ہے۔ کچھ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ اگر آپ کا ہے تو بتائیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے