کالم

آشیانہ سے نیا پاکستان ہاوسنگ تک، ایک ہی کہانی کیوں؟

مئی 27, 2021 2 min

آشیانہ سے نیا پاکستان ہاوسنگ تک، ایک ہی کہانی کیوں؟

Reading Time: 2 minutes

ایک ایسا ملک جس میں کم از کم اجرت انیس ہزا 500 روپے ماہوار ہو اور جس میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ افراد خط غربت سے نیچے ہوں۔(خط غربت سے نیچے روزانہ 290 روپے یا دو ہزار 721 روپے ماہانہ سے کم خرچ کرنے کی صلاحیت کے حامل اشخاص کو کہتے ہیں)میں ایسی ہاؤسنگ سکیم لے کر آنا کیسا ہے جس میں دس ہزار روپے ماہوار کہ قسط ادائیگی ضروری ہو؟
کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے؟ یا عمران خان کے پیش رو بھی ایسی کوشش کر چکے ہیں؟ شہباز شریف کے ڈریم پراجیکٹ آشیانہ کا جائزہ لیں،جو ایسی ہی سکیم تھی تو آپ کو نظر آئے گا کہ پچھتر فیصد گھر انویسٹرز کے ہیں جو کرائے پر اٹھا رکھے ہیں۔کرایہ دس سے بارہ ہزار روپے ماہانہ ہے اور یہاں رہنے والے پچیس ہزار سے پیتیس ہزار روپے کی آمدن والی بریکٹ کے ہیں۔
یہاں ہر وہ دھندہ ہوتا ہے جو ممنوع ہے۔
گھروں کا محل وقوع،تزئین اور ماحول بہت دگرگوں ہے۔
اب اس میں ایک اور پھندہ ہے وہ یہ کہ جب سرکار تعمیر کا کام کرواتی ہے تو اس کا ایک انجینئر تخمینہ یا سٹیٹمنٹ بنواتی ہے اور اس پر ٹھیکیدار کا منافع اور ٹیکس کی رقم کا اضافہ کرتی ہے اور ٹینڈر شائع کر دیتی ہے، جس سے لاگت بڑھ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اس وقت گرے تعمیر کا مارکیٹ ریٹ اگر پندرہ سو روپے مربع فٹ ہے تو اس پر کم از کم پچیس فیصد اور زیادہ سے زیادہ پینتیس فیصد اضافہ ہوجائے گا، اگر ہم اسے اوسط تیس فیصد لیں تو یہ انیس سو پچاس روپے ہوجائے گا۔
اس وقت سی کلاس مکمل تعمیر کی لاگت پچیس سو روپے مربع فٹ ہے جس میں تیس فیصد جمع کریں تو یہ ساڑھے بتیس سو روپے فی مربع فٹ بنے گا۔
دو بیڈ روم کا ایک فلیٹ جس میں تقریباً ایک ہزار مربع فٹ بنتا ہے، اگر آپ زمین کی قیمت، مفت لگائیں تو بھی ہزار فٹ یا سو مربع میٹر کا گھر ساڑھے بتیس لاکھ میں بنے گا۔
اگر بتیس لاکھ روپے کا یہ اپارٹمینٹ دس سال کی اقساط پر بھی دیا جائے تو بیس فیصد پہلی ادائیگی کے بعد تقریباً پچیس ہزار روپے ماہانہ قسط بنے گی۔
ابھی تک جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق کچھ فلیٹ چودہ لاکھ روپے کی قیمت میں فروخت ہوں گے،اگر آپ ای کلاس کی تعمیر بھی کریں اور اس کی لاگت پچیس سو بھی ہو تو یہ پانچ سو سکوائر فٹ کا اپارٹمنٹ بنے گا جو غریب فیملی کے لئے ناکافی ہے کیونکہ غریب کثرت اولاد کا قائل ہوتا ہے۔
اس ساری سکیم میں بہت سے اگر اور مگر شامل ہیں جن کا جواب دینا ابھی ممکن نہیں۔
خواہش اور حقیقت میں موجود فرق بہت واضح اور زیادہ ہے اسی لیے اس کی کامیابی کے امکانات بھی کم ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے