گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب و واقعات !
Reading Time: 8 minutesتحریر:عبدالجبارناصر
کونسل کے 6 ارکان کا انتخاب!
وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں قائم 15 رکنی گلگت بلتستان کونسل کے 6 ارکان کا انتخاب گلگت بلتستان اسمبلی کے 33 ارکان نے حکومتی منصوبے کے مطابق ’’شو آف ہینڈ‘‘ کے ذریعے 12 نومبر 2021ء کو کرلیا ہے ، حالانکہ طریقہ انتخاب کا ایشو ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ درخواست گزار کے مطابق 10 نومبر کو کیس کی سماعت ہونی تھی، مگر آخری وقت موخر کردی گئی۔ غالباً الیکشن کمیشن گلگت بلتستان اور حکومت گلگت بلتستان نے ایسی موقع کا فائدہ اٹھالیا اور پولنگ کا عمل مکمل کرلیا ، کیو نکہ حکم امتناعی بھی نہ تھا۔
کیس کا مستقبل!
اب کیس کا مستقبل سوالیہ نشان ہے۔ اگر کیس کا فیصلہ شو آف ہینڈ کو خلاف آئین و قانون قرار دیتا ہے تو امکان ہے کہ پھر کونسل کا الیکشن بھی کالعدم ہوجائےگا اور یہ بھی بعید نہیں کہ موجودہ الیکشن کو چھوڑ کر آئندہ کے لئے کوئی حکم جاری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات ہونے کی وجہ سے درخواست کو خارج کیا جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ درخواست گزار مایوسی یا دبائو میں آکر درخواست واپس لے۔ اس کیس کا مستقبل جو بھی ہو مگر حکومتی اور الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کا موقف بہت اہم ہوگا۔
درخواست گزار کو مشورہ!
یہاں پر ہم مسلم لیگ(ن) کے رہنماء اور درخواست گزار عبدالرشید ارشد کو مشورہ دیں گے کہ وہ درخواست واپس نہ لیں اور فیصلے کے مرحلے تک جانیں دیں تاکہ علم ہوکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 اور انتخابی اصلاحاتی ایکٹ 2017ء کے خلاف پولنگ کے عمل پر حکومت اور الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان کیا موقف اختیار کرتا ہے ۔ خطے کے سیاسی مستقبل اور صوبہ بنانے کے تحریک انصاف کے دعووں کے ضمن میں اس کیس میں حکومت گلگت بلتستان اور الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کا موقف انتہائی اہم ہوگا۔
پولنگ کا نتیجہ !
گلگت بلتستان کونسل کی 6 نشستوں کے لئے 11 نومبر کی پولنگ کے نتائج کے مطابق 20 ووٹ والی تحریک انصاف کو 3نشستیں ، 4ووٹ والی پیپلزپارٹی ، 3 ووٹ والی مسلم لیگ(ن) اور 3 ووٹ والی مجلس وحدت مسلمین کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی ۔ ایک نشست پر کامیابی کے لئے 5 ووٹ(ارکان اسمبلی ) درکار تھے۔ نتائج کے مطابق ۔ مجلس وحدت مسلمین کے احمد علی نوری (بلتستان) کو ووٹ دینے والوں میں مجلس وحدت اور تحریک انصاف کے کاظم میثم، اکبر رجائی، مشتاق ، کلثوم اور کنیز فاطمہ ، مسلم لیگ(ن) کے اقبال نصیر (دیامر) کے ووٹرز میں مسلم لیگ(ن) کے غلام محمد، انجینئر انور ، صنم فریاد، جمعیت علما اسلام کے رحمت خالق اور اسلامی تحریک پاکستان کے ایوب وزیری ، پیپلزپارٹی کے ایوب شاہ (غذر)کو کامیاب کرانے والوں میں پیپلزپارٹی کے امجد حسین ایڈووکیٹ،غلام شہزاد آغا، سعدیہ دانش اور انجینئر اسماعیل اور قوم پرست رہنماء نواز خان ناجی، تحریک انصاف کے حشمت اللہ خان (استور) کے ووٹرز میں تحریک انصاف کے فتح اللہ خان ، ثریا زمان، سہیل عباس ، راجہ زکریامقپون اور راجہ اعظم خان، تحریک انصاف کے سید شبیہ الحسنین (استور)کو کامیاب کرنے والوں میں تحریک انصاف کے خالد خورشیدخان (وزیراعلیٰ گلگت بلتستان)، امجد زیدی ، وزیر سلیم ، شمس الحق لون اور تحریک انصاف کے عبدالرحمن (دیامر)کے ووٹرز میں تحریک انصاف کے جاوید منوا، نذیر احمد،کرنل عبید، عبدالحمید اور دلشاد بانو شامل ہیں اور تحریک انصاف کے راجہ شہباز کو 3 ووٹ پڑے جو تحریک انصاف کے حاجی شاہ بیگ ، حاجی گلبرخان اور مولانا فضل الرحیم ہیں ، جبکہ تحریک انصاف کے بانی رہنماء صابر حسین ، ٓآزاد امیدوار دلپزیر اور عطاء اللہ کو کوئی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا۔ ریجن کے حساب سے گلگت ریجن کو 5 اور بلتستان کو ایک نشست ملی۔ ڈویژن کے حساب سے دیامر ڈویژن کو 4، جبکہ گلگت اور بلتستان ڈویژن کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔ تحریک انصاف کے تینوں کونسل ممبران کا تعلق دیامر ڈویژن سے ہے۔
بےوفائی کا صدمہ!
صابر حسین گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے بانی رہنماء ہیں اور تقریباً 15 سال سے اپنا سب کچھ تحریک انصاف پر نچاور کردیا، 2009ء میں گلگت بلتستان میں عمران خان کا کوئی نام لینے والا نہیں تھا، صابر حسین نے عمران خان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ اس کے بعد بھی پارٹی کے لئے لڑتا رہا۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے 2020ء کے انتخابات میں جب جماعت کی کامیابی کی امید پیدا ہوئی تو جنرل نشست پر ٹکٹ نہیں ملا اور آسرا ٹیکنوکریٹ کا دیا گیا، ٹیکنوکریٹ کے وقت مشیر یا کوارڈینیٹر کی بات کی گئی، مشیر و کوارڈینیٹر زکے وقت گلگت بلتستان کونسل کی یقین دہانی کرائی گئی اور کونسل کی پولنگ تک آسرے میں رکھا گیا اور ووٹنگ کے وقت ایوان میں صابر حسین کا نام بار بار پکار نے پر تحریک انصاف کے 20 ممبران میں سے ایک نے بھی ساتھ نہیں دیا ۔ صابرحسین بے وفائی کا یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکے اور انکی طبعیت خراب ہونے کے باعث ان کو ہسپتال داخل کرنا پڑا ، جس پر کھلبلی مچ گئی اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان سمیت متعدد رہنماء ہسپتال پہنچے ۔بانی رہنماء کے ساتھ تحریک انصاف کے اس رویہ اور نظریاتی رہنماء کی اس تذلیل کی تمام شعبہ ہائی زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی اور افسوس کا اظہار کیا۔ بعد میں وزیر اعلیٰ نے خصوصی کوارڈینٹر بنادیا ۔ صابر حسین کو کوارڈینٹر تو وزیراعلیٰ نے بنادیا ،مگر ہسپتال پہنچنے کے بعد ، اگر یہی فیصلہ ایک دن قبل صابر حسین کو اعتماد میں لیکر کیا جاتا تو صورتحال اتنی خراب ہوتی اور نہ بدنامی ملتی ۔
تحریک انصاف کے کامیاب کونسلرز !
بظاہر تحریک انصاف انصاف 20 ممبران کے ساتھ 3 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے ، مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی نظریاتی بنیاد پر حشمت اللہ خان کی ایک ہی نشست ہے ۔دعوی کیا جارہا ہے کہ دیامر کے عبدالرحمان وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کی ذاتی پسند ہیں ۔ استور کے سید شبیہ الحسنین وزیر اعلی خالد خورشید خان اور مشیر خوراک شمس الحق لون کے نامزد امیدوار ہیں ۔ سید شبیہ الحسنین کا بنیادی طور پر کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ ضلع استور کے ممتاز شیعہ مذہبی رہنماء سید عاشق حسین کے فرزند ہیں ۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات 2020ء میں ضلع کی استور کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کی حمایت کے وعدے پر پہلے سید شبیہ الحسنین کو نگراں کابینہ میں وزیر اور اب گلگت بلتستان کونسل کا ممبر بنایا گیا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں استور کی دونوں نشستوں پر سید عاشق حسین کی حمایت کی وجہ سے تقریباً دو تہائی شیعہ ووٹ تحریک انصاف کو ملا اور استور حلقہ ون سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان اور حلقہ نمبر 2 سے مشیر خوراک شمس الحق لون کامیاب ہوئے ۔
حشمت اللہ خان کی کامیابی وجہ !
تحریک انصاف گلگت بلتستان کے سابق صدر و چیف آرگنائزر حشمت اللہ خان اسمبلی انتخابات میں جی بی ایل اے 14 استور 2 سے مضبوط امیدوار تھے ، مگر وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور کی سازش سے ٹکٹ نہیں ملا ، جس حشمت اللہ خان کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن پارٹی سے بغاوت نہیں کی اور تحریک انصاف نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ان کو ترجیح نمبر 2 پر رکھا ، مگر اسی دوران جماعت اسلامی نے حشمت اللہ خان کے بھائی نعمت اللہ خان کو ٹکٹ دیا ، جس کی وجہ سے حشمت اللہ خان کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوئی اور غالباً مجبوری میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ نہیں لیا اور اسی دوران تحریک انصاف نے ایک سازش کے تحت مخصوص نشستوں کی فہرست میں ٹمپرنگ یا دوسری فہرست جمع کرکے حشمت اللہ خان کا نام نمبر 2 سے نکال کر آخری نمبروں میں رکھا اور نمبر 2 سے آگے کی پوزیشن بنتی ہی نہیں تھی ۔ تحریک انصاف کے اس عمل کی ہر سطح پر مذمت اور اس پر افسوس کیا گیا ۔ تحریک انصاف کا عمل قانونی طور پر جرم تھا ، کیونکہ ایکٹ 2017ء میں واضح درج ہے کہ ایک بارمخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست جمع ہونے کے بعد اس فہرست کمی بیشی اور نہ ردو بدل ہوسکتی ہے ۔ حشمت اللہ خان نے عدالت سے رجوع کرلیا اور یہ درخواست زیر سماعت ہے، تاہم حشمت اللہ خان کو کونسل کے ٹکٹ کی یقین دہانی کرائی گئی ۔ قانون کو مدنظر رکھا جائے تو اس درخواست پر نہ صرف تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مولانا فضل الرحیم نشست سے محروم ہوتے ہیں ، بلکہ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور ریٹرننگ آفیسر کے خلاف سخت کارروائی ہوتی ۔تحریک انصاف کو خطرہ تھا کہ اگر حشمت اللہ خان کو کونسل ممبر نہیں بنایا گیا تو وہ اس کیس کو چلائیں گے اور تحریک انصاف کو لینے کے دینے پڑیں گے ،یوں حشمت اللہ خان کا ٹکٹ اور کامیابی یقینی بنی۔
ن لیگ کا سرپرائز !
گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے سرپرائز دیا،کیونکہ ان کے پاس 3 ووٹ تھے اور جیت کے لئے 5 ووٹ درکار تھے ۔ 10 نومبر کے رات گئے تک ن لیگ نے اپنی حکمت عملی کو ہوا بھی لگنے نہیں دی اور خاموشی سے جمعیت علماء اسلام اور اسلامی تحریک پاکستان کے دو ممبران کی حمایت حاصل کرکے کامیابی کو یقینی بنایا۔ ن لیگ کے اقبال نصیر سے قبل اسی گھرانے کے سعید افضل مرحوم 2009ء اور 2016ء میں سرپرائز دیکر کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور گلگت بلتستان کا یہ واحد گھرانہ جو ہر بار گلگت بلتستان کونسل کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔
نواز خان ناجی کا دھوبی پٹکہ !
قو،م پرست رہنماء نواز خان ناجی اور جمعیت علماء اسلام کے حاجی رحمت خالق آزاد امیدوار عطاء اللہ کے حامی تھے ،مگر عطاء اللہ مزید 3 ووٹ پورے نہیں کرسکے ، جس کے بعد نواز خان ناجی نے حکومتی امیدوار اور حاجی رحمت خالق نے ن لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ پینل بناتے وقت حکومتی پالیسی سازوں نے نواز خان ناجی کا نام تحریک انصاف کے راجہ شہباز (ہنزہ)کے پینل میں نام رکھا ، تحریک انصاف نے یقین دہانی کرائی کہ 4 ووٹ تحریک انصاف کے ہیں اور پانچواں ووٹ نواز خان ناجی کا ہوگا، مگر رائے شماری کے وقت نواز خان ناجی نے دیکھا کہ راجہ شہباز کے حق تحریک انصاف کے 3 ووٹ ہیں اور اگر نواز خان ناجی فیصلے کے مطابق حکومتی امیدوار راجہ شہباز کو ووٹ دیتے ہیں تو چھٹی نشست کے لئے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں ٹائی ہوگا اور ٹائی میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ایوب شاہ ہار سکتے ہیں(جو ناجی کے ضلع سے ہیں )۔ ایسے میں نواز خان ناجی کو سخت عوامی ردعمل کا سامنا اور ووٹ بنک کو شدید خطرہ ہوتا۔ اگر ٹائی میں پیپلزپارٹی کے ایوب شاہ جیت بھی جاتے تو تب بھی ناجی کو شدید ردعمل او ر الزامات کا سامنا ہوتا۔ ایوان میں جب تحریک انصاف کے راجہ شہباز 3 ووٹ سے آگے نہ بڑھ سکے تو اچانک نواز خان ناجی نے اپنا ووٹ پیپلزپارٹی کے ایوب شاہ کے حق میں کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں پیپلزپارٹی کامیاب ہوگئی ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومتی منصوبہ سازوں نے دانستہ طور پر نواز خان ناجی کو اپنے 3 ووٹ والے پینل میں رکھاتھا ، تاکہ ایک تیر سے نواز خان ناجی کے خلاف کئی ہدف حاصل کئے جائیں ، مگر معاملہ الٹ ہوا ۔ نواز خان ناجی نے حاضر دماغی سے نہ صرف حکومتی مبینہ سازش کو ناکام بنایا ، بلکہ اپنے ووٹ بنک کو مضبوط اور اپنے ضلع میں بھر پور عوامی ہمدردی حاصل کی اور ساتھ ساتھ مبینہ الزامات کا بھر پور جواب بھی دے دیا۔
گلگت بلتستان کونسل کی پوزیشن !
گلگت بلتستان کونسل بظاہر آزاد کشمیر کونسل کی طرح کا ادارہے ۔ 2018ء تک اس ادارے کے پاس قانون سازی اور بجٹ کے کئی اختیارات تھے ، مگر آڈر 2018ء اور 2019ء میں یہ صرف نام کا ادارہ ہے ۔ قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے اور یہی صورتحال بجٹ کے حوالے سے ہے۔ یہ کونسل 15 رکنی ہے ، جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان سربراہ ، جبکہ گلگت بلتستان کے 6 منتخب ممبران کے ساتھ ساتھ گورنر گلگت بلتستان ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور 6 وفاقی وزراء اور حکومتی نامزد نمائندے ممبر ہیں۔ کونسل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگست 2018ء سے مئی 2021ء تک گلگت بلتستان کونسل کا اپنے چئیرمین وزیر اعظم پاکستان سربراہی میں ایک بھی اجلاس نہیں ہوا حالانکہ کونسل کے رولز کے مطابق ہر 3 ماہ میں ایک اجلاس ہونا چاہیے، سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار میں کچھ اجلاس ضرور ہوئے ،مگر وزیر اعظم عمران خان نے کبھی کونسل کو اہمیت نہیں دی ۔ عملاً یہ ادارہ خزانے پر ایک بوجھ ہے۔